Column

عمران سچا پہلوان …. ناصر نقوی

ناصر نقوی

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمانی روایت میں کوئی وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کرسکا تو خان اعظم کیسے پوری کر سکتے تھے ، میرا یہ موقف روز اول سے تھا ، میں نے اسی دلیل پر کہ خان لیاقت علی خان سے لے کر نواز شریف تین مرتبہ وزیر اعظم بننے کے بعد بھی یہ ریکارڈ نہیں توڑ سکے بلکہ وہ تین مرتبہ منتخب اور تین مرتبہ نکالے جانے پر منفرد ریکارڈ ہو لڈر بن چکے ہیں اور توقعات یہی ہیں کہ ان کا یہ ریکارڈ کوئی نہ توڑ سکے گا۔ سابق کھلاڑی وزیر اعظم پہلی بار تحریک عدم اعتماد کا شکار بن کر ریکارڈ ہولڈر تو بن گئے ہیں لیکن وہ یہ نہیں کہتے مجھے کیوں نکالا ؟اس لیے کہ اس کی تمام تر وجوہات انہیں معلوم ہیں وہ اپنی اتحادی حکومت اور سلیکٹرز کے انتخاب سے اس قدر مطمئن تھے کہ انہیں کسی کی پرواہ ہی نہیں تھی ، متحدہ اپوزیشن نے قریباً چار سال سلکٹیڈ ، نااہل اور نالائق کہہ کر انہیں چلتا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ، اجتماعی استعفوں سے اسمبلی کو ناکارہ کرنے کی بھی منصوبہ بندی کی گئی لیکن کچھ حاصل نہیں ہو سکا ۔

عمران خان الیکشن 2018 کے  فاتح تھے اس لیے وہ اپنی فتوحات میں مگن رہے ، اس حد تک کہ ان کے اپنے اتحادی بھی اس سے نالاں ہو گئے ایسے میں سابق مفاہمتی صدر آصف زرداری کا سمجھایا کارڈ کام آیا اور پارلیمانی تاریخ میں کچھ نیا ہو گیا ، جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہو سکا تھا۔ متحدہ اپوزیشن کا دعویٰ تھا کہ وہ اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے احتجاج ، دھرنے اور لانگ مارچ کریں گے لیکن ہمیں یقین ہے کہ اسلام آباد کے گھیراؤسے پہلے ہی عمران حکومت اپنے بھار سے گر جائے گی ۔ہم سب نے دیکھا کہ کچھ ایسا ہی ہوا، عمران کی عدم توجہی ، منتخب پر غیر منتخب لوگوں کی ترجیح اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی مسلسل پذیرائی پر اپنے پرائے ہو گئے،
حکمران اور خاص طور پر ڈیوٹی فل وزیر داخلہ شیخ رشید اور وزیر باتدبیر فواد چودھری شور مچاتے رہے کہ پاکستان مسلم لیگ نون میں شین اور میم جیسے گروپ جلد فعال ہو جائیں گے لیکن حقائق کچھ اور نکلے ، تحریک انصاف کے حصے بخرے ہو گئے۔ جہانگیر ترین گروپ ، عبدالعلیم خان گروپ اور چھینہ گروپ نے جنم لے لیا ۔ کچھ کو خان اعظم سے اختلاف تھا تو کچھ ان کی عثمان بزدار سے محبت کے رقیب نکلے۔ سادہ اکثریتی حکومت میں 24 سے زائد ارکان اسمبلی کا منحرف ہونا ، انتہائی معنی خیز تھا پھر بھی نادان دوستوں نے وزیر اعظم کو سب اچھا کی رپورٹ دی حالانکہ یہ سب کے سب سمجھدار سیاست دان جانتے تھے کہ آج نہیں تو کل معاملہ سامنے آجائے گا پھر بھی خان اعظم کے بظاہر وفاداروں نے مصلحت پسندی کی چادر اوڑھے رکھی اور سامنے نظر آنے والے سیاسی طوفان پر بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں ۔ دنیا کا اندازہ تھا کہ عمران خان ساری عمر کنٹینر پر ہی کھڑا رہیں گے کیونکہ ان کے ہاتھ میں اقتدار اور حکمرانی کی لکیر نہیں لیکن سب نے دیکھا حالات نے کروٹ بدلی اور اقتدار اکثریت نہ ہونے کے باوجود اتحادیوں کی مدد سے عمران خان کی جھولی میں آگرا ، 2018 کے انتخاب نے ماضی کے سیاستدانوں کو گھر بھیج دیا جن میں حضرت مولا نا فضل الرحمان بھی شامل تھے۔
اس صورت حال پر عوامی سطح پر زبر دست لڑائی ہے دونوں گروپس اپنی قیادت کے وکیل صفائی بنے ہوئے ہیں سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے۔ آپ متحدہ اپوزیشن کے کارنامے پر خوش ہیں یا کھلاڑی کی واپسی پر رنجیدہ ، سوشل میڈیا ہر دو صورتوں میں محظوظ کر سکتا ہے بشرطیکہ آپ میں کوئی حس مزاح ہو ، کیونکہ کسی گروپ کی پارٹی بنے تو بلڈ پریشر ہائی ہو سکتا ہے لہٰذا نقصان سے بچنے کے لیے اس قومی حساس بحث کو ہنس کر ٹال دیں کیونکہ موجودہ دور میں غیر جانبدار کو جانور قرار دیا جاچکا ہے۔عوامی سطح کے دو جانبدار سیاسی دانشوروں کی تکرار ملاحظہ فرمائیں۔
یہ اندرون شہر لاہور کے دو ذمہ داروں کا مکالمہ ہے ٹوٹو میاں آف موچی دروازہ نے اپنے ہم عمر بالے قصائی کو للکارتے ہوئے پوچھا کہاں گیا تمہارا کھلاڑی، ہم کہتے تھے یہ اناڑی مارا جائے گا تم اس کے گیت گاتے تھے، کدھر گئی ریاست مدینہ اور تمہاری تبدیلی سرکار؟ ۔بالے قصائی نے انتہائی تحمل سے جواب دیا ، پاکستانیوں کی رگ رگ میں کرپشن اور حرام کی کمائی رچ بس گئی ہے تمہیں کسی چیز کی قدر ہی نہیں ، تمہارا تاجر وزیر اعظم قوم کامال بکری کر کے لندن کی ٹھنڈی ہوائیں کھارہا ہے۔ عمران خان سچاپہلوان ہے۔اسے گھیر گھار کر آؤٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن وہ دلوں پر راج کرتا ہے اور ہمیشہ کرے گا ۔
ٹوٹو میاں ۔ بھائی کیا دے گیا تمہیں ، سبز باغ اور سنہرے خواب؟
بالاقصائی۔ حق سچ کا راستہ دکھا گیا ، حب الوطنی کے لیے اقتدار کو لات مار دی اس نے ۔
ٹوٹو میاں ۔ بات کاٹتے ہو ئے ، نہیں نہیں ، لات نہیں ، گھونسوں اور مکوں کی بات کرو ، شرماتے کیوں ہو؟
بالا قصائی ۔ یہ ڈرامہ فرنگیوں نے بی بی سی سے چلایا ۔بدنام کرنے کے لیے ۔ ہر طرف سے تردید آگئی ہے یہ جو تمہارا کرپٹ ٹولا ہے نا، جو خود بھکاری اور ان کے معمولی ملازمین ارب پتی ہیں ، یاد رکھنا ، عمران خان کی ہر وہ بندہ مخالفت کرے گا جو خود کرپٹ ہوگا کیونکہ اس کا ہر کام اسی سسٹم میں ہوسکتا ہے جو ملک و قوم کا حامی ہوگا وہ کبھی عمران خان کی مخالفت نہیں کرے گا ۔
ٹوٹو میاں ۔ ظفر مرزا ، شہزاد اکبر ، فیصل واڈا یہ سب نیک پروین تھے اوبھائی جو جیسا ہوتا ہے ویسے ہی بندے ارد گرد اکٹھے کر لیتا ہے ابھی میں نے مراد سعید کا نام نہیں لیا؟
بالا قصائی ۔ تم کیا کسی کی قدر جانو لکھ لو۔ یاد کرو گے عمران خان کو۔ 74 سال ہمیں قائد اعظم ثانی ملا تھا جو نہ وڈیرہ ، نہ سرمایہ دار، نہ فرقے باز، نہ برادری باز، لسانیت اس کے قریب سے نہیں گزری ، عمران سچا پہلوان تیری عظمت و ہمت کو سلام ،نہ تو جھکا ،اور نہ بکا، نہ تھکا اور نہ گھبرایا ۔ او بھائی تاریخ کا پہلا وزیر اعظم ہے جو بے ایمانی یا کرپشن پر نہیں ، خود داری اور حب الوطنی پر ہٹایا گیا اللہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت دے کوئی تین مرتبہ وزیر اعظم بن کر زلیل ترین ہو گیا اور کوئی ایک بار بن کر عظیم ترین۔
ٹو ٹو میاں بولے بس بس حد سے نہ بڑھو ، ہم تو اس دھرتی کے قیدی ہیں یہاں بسنے والوں کے لیے فکر مند ہیں۔ بتاؤوعدوں ، نعروں اور یو ٹرن کے سوا کیا کچھ کیا تمہارے عظیم ترین نے۔ کرپشن ، لوٹ مار سب کرتے ہیں سچے پہلوان عمران نے بھی توشہ خانے کا ہار بیچ دیا ابھی بہت کچھ نکلے گا جنہوں نے صادق اور امین قرار دیا تھا ان میں بندیال صاحب بھی شامل تھے اس وقت یہ اچھے تھے اب برے ہو گئے۔
بالا قصائی بولا۔ سچا اور اچھا تھا تو تنخواہ میں گزارا نہیں ہوتا ، سرکار سے ہار خرید کر فروخت کر دیا تو کون سی قیامت آگئی چوری تو نہیں کی قومی خزانہ تو نہیں لوٹا۔
ٹوٹو میاں نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا ۔واہ کیا کہنے ؟ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ وطن عزیز میں کرپشن سے نفرت کرنے والے ایماندار بھی اپنے بیٹوں کے لیے کرپٹ افسروں کے رشتے تلاش کرتے ہیں ۔
بالا بولا ۔ ان کی سوچ کرپٹ ہوتی ہے اب دیکھو نا ۔ہمارے ہاں سب ایماندار شخص کو پسند کرتے ہیں لیکن اسے ووٹ نہیں دیتے یہ ہمارے معاشرے کے تضادات ہیں انہیں صرف عمران سچا پہلوان ختم کر سکتا ہے اور کوئی نہیں ۔
ٹوٹومیاں بولے لطیفہ سنو، جج نے سزائے موت کے مجرم سے پوچھا آخری خواہش ،مجرم نے جواب دیا حضور اگر جان کی امان پاؤں تو مجھے کوئی ایسا یو تھیا دکھا دیں جو اپنی بات کا پکا ، باغیرت اور یو ٹرن لینے والا نہ ہو، جج نے جواب دیا چالاک ساری زندگی جینا چاہتا ہے۔
بالے نے طیش کھا کر قریب پڑا لوٹا ٹوٹو میاں کے سر پردے مارا ۔ لوٹا پرانے انداز کا تانبے پیتل کا تھا لہو لہان ہو گئے ، اب جب کوئی سوال کرتا ہے کہ یہ کیا ہوا ؟ جواب دیتے ہیں جناب سیاست میں رواداری اور برداشت ختم ہو گئی ہے ۔ ایک یوتھیے سے پوچھا تھا ، صادق اور امین ، وزیراعظم کا کیا حال ہے؟ اناڑی مارا گیا نا ؟بس پھر اس نے ایک بھاری بھرکم لوٹا دے مارا ۔ اب ہم لوگوں کو اپنا حال سنارہے ہیں ۔ صاحب کوئی شرم ہوتی ہے، حیا ہوتی ہے۔ یہاں تو بات کوئی سننے کو تیار نہیں، البتہ ، لوٹے ، مارنے والے بہت ہیں۔ خد ا اس قوم پر رحم کریں، ہم تو دعا ہی کر سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button