Column

غزوہ بدر اور غلبہ دین …. عبدالرشید مرزا

آج وطن عزیز مشکلات میں گھرا ہوا ہے ہمارا دین مغلوب ہے۔ کفار کا ڈر اور خوف ہمارے حکمرانوں کے دل میں راسخ کر گیا ہے۔ کہیں سے ڈرون حملہ آور ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکی فوج کی غلامی میں دم توڑ رہی ہے اور امریکہ کے خوف سے ہمارے حکمران ریمنڈ ڈیوس کو رہا کر دیتے ہیں لیکن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے بات کرتے ہوئے ان کی ٹانگیں کانپتی ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے کشمیری مسلمانوں کو ظلم سہنے کے لیے تن تنہا چھوڑ دیا ہے ان کے ساتھ ظلم کی داستانیں رقم ہورہی ہیں۔  قتل و غارت کا بازار گرم ہے، حوا کی بیٹی کی عزت پامال کی جاتی ہے۔ ہمارے بزدل حکمران، دولت اور کرپشن کے نشے میں مست سب نظارہ دیکھ رہے ہیں لیکن کشمیریوں کی آزادی کے لیے کوئی ابن قاسم کی سنت کو زندہ نہیں کرتا۔
اسلامی تحریکیں وسائل اور تعداد میں کم ہونے کے باوجود غلبہ دین کی جدوجہد کر رہے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں نے معیشت کا یہ عالم کر دیا ہے کہ ساری قوم کو سود خور ہے جس کی وجہ سے اللہ کی مدد نہیں آرہی۔ ان حالات میں جو اسلامی تحریکیں غلبہ دین کی جدوجہد کررہی ہیں جن کے پاس زرائع بھی کم ہیں ان کو دیکھ کر غزوہ بدر کی یاد آتی ہے۔رب العزت نے قرآن مجید میں اسے ’’یوم الفرقان‘‘ حق و باطل میں فرق کا دن قرار دیا ہے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح نے واضح کر دیا کہ اسلام حق ہے اور حق فتح یاب ہوتا ہے۔
17رمضان المبارک سن 2 ہجری مدینہ منورہ سے80 میل کے فاصلے پر واقع بدر نامی مقام پر مسلمانوں اور قریش مکہ کے درمیان پہلا غزوہ ہوا۔ تاریخ اسلام کا وہ عظیم الشان یادگار دن ہے جب اسلام اور کفر کے درمیان پہلی فیصلہ کن جنگ لڑی گئی اور مٹھی بھر
مسلمانوں کو کفار کے لشکر پر فتح عظیم حاصل ہوئی۔ اسلامی تحریک کے اس لشکر کے پاس آپﷺ کی قیادت تھی۔
تاریخی روایات کے مطابق مسلمانوں کی کل تعداد تین سو تیرہ تھی اور ساز و سامان میں 60 اونٹ، 60 زرہیں اور چند تلواریں تھیں جبکہ دشمن کی تعداد ایک ہزار کفار پر مشتمل تھی ۔ اْن کے پاس 700 زرہیں، 70 گھوڑے، لاتعداد اونٹ، بے شمار تلواریں اور نیزے تھے۔
دنیاوی سازوسامان کی قلّت کے باوجود مسلمانوں نے ایک ہی دن میں معرکہ جیت لیا۔ کافروں کے نامور 70 سردار مارے گئے اور اتنے ہی گرفتار ہوئے جنگ سے قبل آپﷺنے اپنے رب کے سامنے جو دعا مانگی وہ تاریخ کا حصہ بنی جو آج بھی مایوسی سے نکال کر جزبوں کو تروتازہ کرتی ہے۔ رات کو حزب اللہ کے لشکر میں گھانس پھونس کی اس جھونپڑی میں جو آپﷺ کے لیے بنائی گئی تھی،رحمۃ اللعالمین ، خاتم النبیین، سید المرسلین جناب محمد رسول اللہﷺنے طویل ترین سجدہ اوردعا کی۔ اس دعا میں یہ الفاظ بھی آئے
ہیں کہ اے اللہ! کل اگر یہ لوگ یہاں شہید ہو گئے تو پھر قیامت تک تیرا نام لینے والا کوئی نہیں رہے گااور تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا، اب اس کو پورا کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ حضورﷺنے ایسا کیوں فرمایا؟ اس لیے کہ آپﷺآخری نبی اور رسول ہیں اور آپﷺ کے بعد تا قیامت کوئی نبی آنے والا نہیں تھا۔ حضورﷺ نے بارگاہِ رب العزت میں مزید عرض کیاکہ میں نے اپنی پندرہ برس کی کمائی میدان میں لا کر ڈال دی ہے۔ اْس وقت حضرت ابوبکر صدیق ؓتلوار لیے پہرے پر کھڑے تھے جس وقت حضورﷺسربسجود تھے،جب حضرت ابوبکرؓنے یہ الفاظ سنے تو انہوں نے عرض کیا ’’حسبک حسبک یا رسول اللہ‘‘ اے اللہ کے رسول! بس کیجئے ،بس کیجئے، یقینا اللہ آپﷺ کی مدد فرمائے گا، اس پر حضورﷺ نے سر مبارک اْٹھایا اور زبان مبارک پر یہ الفاظ جاری ہوئے (القمر:۵۴) گویا اللہ کی طرف سے خوشخبری تھی کہ ’’اس جمعیت کو شکست ہوکر رہے گی اور یہ پیٹھ دکھا کر بھاگیں گے‘‘۔
تاریخ آج پھر افغانستان کی سرزمین پر ذندہ ہوتی ہے جہاں مسلمان بھوکے جنگ کے بہت کم زرائع لیکن ایمان کی روشی سے مالا مال مجاہدین اور دوسری طرف امریکہ جس نے افغانستان کے پہاڑوں پر دنیا کا جدید اسلحہ برسا دیا لیکن اللہ تعالیٰ کفر کو شکست دے کرثابت کرتا ہے کہ دنیا پر غلبہ پانے کی تیاری صرف جدید ہتھیار بنانے سے نہیں ہوگی بلکہ ہمیں اپنے کردار بہتر بنا کر صحیح معنوں میں مسلم قوم بننا ہوگا تب ہی فرشتے اتریں گے مدد کو۔ پھر فتح ہمارا مقدر ہوگی اور اسلام غالب آئے گا۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
ہتھیاروں پر بھروسہ کرنے سے اللہ کی تائید نہیں ملا کرتی اس کی مثالیں بھی تاریخ سے بے شمار مل جائیں گی۔ ہمارے پاس جدید ہتھیار ہیں، فوج ہے پھر بھی دین مغلوب ہے۔
ہتھیار ہیں اوزار ہیں افواج ہیں لیکن وہ تین سو تیرہ کا لشکر نہیں ملتا۔
جدوجہد اور قربانیوں کے بعد پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کی گئی مدینہ کے بعد دوسری ریاست ہے جو رمضان المبارک میں آزاد ہوتی ہے جس کا مقصد اسلامی ریاست کا قیام تھا ہمیں چاہئے جدوجہد کریں تاکہ پاکستان میں دین غالب ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button