Editorial

وزیراعظم کے کراچی کیلئے بڑے اعلانات

وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ وفاق سندھ حکومت کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا ۔ پاکستان کی ترقی تب ہوگی جب تمام صوبے ترقی کریں گے۔ ہمیں عمران حکومت نکالنے پر شادیانے بجانے کی بجائے عوامی خدمت کرنا ہوگی کیوں کہ ملک میں بیروزگاری، مہنگائی اور دیگر مسائل ہیں،ہمیں ان کو حل کرنا ہے۔وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے کراچی کا ایک روزہ دور ہ کیا ،مزارقائد ؒ پر حاضری دی، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور دیگر رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں اور یقین دلایا کہ وفاقی حکومت صوبوں کے تحفظات دور کرے گی۔ہم سمجھتے ہیں کہ بلاشبہ سندھ حکومت کو کراچی ٹرانسفارمیشن سمیت کئی منصوبوںکے حوالے سے مشکلات کا سامنا تھا کیوں کہ مرکز میں پاکستان تحریک انصاف جبکہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت تھی اس لیے سیاسی و نظریاتی اختلافات کی وجہ سے دونوں حکومتوں کے درمیان ویسا مثالی تعاون دیکھنے کو نہیں ملا جس کی ضرورت تھی ۔ دیگر کئی مطالبات میں سندھ حکومت کا ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے کو سی پیک کے تحت بنایا جائے لیکن مرکز نے یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا اور اب وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اِس منصوبے کو سی پیک کے تحت ہی بنایاجائے گا۔ وزیراعظم نے وزیراعلیٰ سندھ کی درخواست پر کے فور کے فنڈز مہیا کرنے اور واپڈاچیئرمین کو یہ منصوبہ 2024 تک مکمل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ وزیراعلیٰ نے عوام کو سفری سہولیات کی فراہمی کے لیے بسوں کی خریداری کے لیے 50 فیصد اخراجات دینے کی درخواست کی تو وزیراعظم نے یقین دہانی کرائی کہ بسوں کی خریداری پر وفاقی حکومت سندھ حکومت کی بھرپور مدد کرے گی۔وزیراعظم نے این ایچ اے کو جامشورو، حیدرآباد روڈ پر کام تیز کرنے کی ہدایت دے دی علاوہ ازیں وزیراعلیٰ سندھ کی درخواست پر نئے سال کی پی ایس ڈی پی میں سندھ کے ترقیاتی پراجیکٹس شامل کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ پانی اور کے سی آر کے معاملات میں خود دیکھوں گا،کمیٹی بنائوں گا،دیگر جو بھی مسائل ہیں ان کو حل کرکے عوام کی توقعات پر پورا اتریں گے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے توانائی سیکٹر، پٹرولیم مصنوعات کی فراہمی کو یقینی بنانے اور بجلی لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کے لیے ہنگامی اجلاس میں کہا کہ ملک میں گیس اور بجلی اور پٹرول بحران پیدا نہیں ہونے دیا جائے گا۔وزیراعظم نے لوڈ شیڈنگ کی وجوہات کے متعلق تحقیقات کرنے اور اس پر فوری طور پر قابو پانے کے متعلق احکامات جاری کیے ۔
یقیناً وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کے پہلے دورہ کراچی میں ہی وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے صوبے کو درپیش مسائل کے حل کے لیے جتنے مطالبات منوانے تھے، وہ منوالیے۔ چونکہ اب وفاق اور مرکز، دونوں میں ہی اتحادی اور ہم خیال ہیں تو اب دیکھنا یہ ہے کہ کراچی کے مسائل کتنی جلدی حل ہوتے ہیں کیوں کہ پہلے سندھ کو وفاق اور وفاق کو سندھ حکومت سے گلے شکوے تھے ۔ دونوں جگہ دو مختلف سیاسی پارٹیوں کی حکومتیں تھیں لیکن اب تو مرکز اور سندھ ایک پیج پر ہیں اب کراچی کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر فوراً حل ہونے چاہئیں اور ’’پنجاب سپیڈ‘‘ اب سندھ میں بھی نظر آنی چاہیے اور سید مراد علی شاہ تو اب کراچی اور سندھ کے مسائل اور ان کے حل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ بہرحال ملکی معیشت میں کراچی
کے اہم اور بڑے حصے سے کبھی انکار نہیں رہا۔ مرکز میں کسی بھی جماعت کی حکومت ہو ملکی ترقی میں کراچی والوں کی تعریف کیے بغیر نہیں رہتی لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ کراچی کو جتنا نقصان سیاسی مخالفت اور متحارب نظریات کی حامل جماعتوں نے پہنچایا اِس کی مثال نہیں ملتی۔ کراچی کے پرانے مکین کہتے ہیں کہ کراچی کی تباہی کا سفر تبھی شروع ہوگیا تھا جب دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا۔ مرکز اور اُس کی ساری مشینری کی توجہ کراچی سے ہٹ کر اسلام آباد کی طرف مرکوز ہوگئی ، اِس کے بعد جنہوں نے عروس البلاد کو اُس کی عالمی اہمیت کے پیش نظر اوپر لیکر آنا تھا
 بدقسمتی سے وہی آپس کے مسائل میں الجھے رہے اور ایک دوسرے کو دیوار سے لگانے کی کوشش میں کراچی کو ہی دیوار سے لگادیا ۔ کبھی یہاں لسانی فرقہ واریت کو ہوا دی گئی تو کبھی اہلیان کراچی کو نظریات کی بنیاد پر ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کردیا ۔ کراچی کی آبادی چار لاکھ سے سوا دو کروڑ سے اوپر ہو چکی لیکن انتظامی حوالے سے نتائج مایوس کن ہی رہے۔کراچی کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی تھی کیوں کہ ملک بھر سے کراچی کی طرف نقل مکانی ہورہی تھی مگر جنہوں نے آبادی کو منصوبہ بندی کے تحت بسانا تھا وہی خرابیوں کے ذمہ دار ٹھہر رہے ہیں۔تیزی سے پھیلتی آبادی کو ڈھنگ سے رکھنا اور انہیں بنیادی سہولیات فراہم کرنا جن کی ذمہ داری تھی وہ یا تو اپنی ذمہ داری سے غافل تھے یا انہیں سیاسی لوگوں نے کام نہیں کرنے دیا یا پھر اُن کی ترجیحات ہی شاید کچھ اور تھیں اس لیے روشنیوں کا شہر مزید خوبصورت اور ترقی یافتہ شہر بننے کی بجائے کچھ ایسا بن چکا ہے کہ اہلیان کراچی کے رہن سہن کو دیکھ کر کانوں کے ہاتھ لگاتے ہیں کبھی بارش کراچی کے مکینوں کو قابل رحم بنادیتی ہے تو کبھی کوڑا کرکٹ کے ڈھیر کراچی کی پہچان بن جاتے ہیں۔
تجاوزات کی تو بات ہی نہ کی جائے کیوں کہ جب بھی تجاوزات کے خاتمے کے لیے کوشش کی گئی اِس کو دوسری طرف سے سیاسی رنگ دے دیاگیا، سرکاری زمینوں کو اِس بے دردی سے نجی استعمال میں لایاگیا کہ خدا کی پناہ، کبھی چائنہ کٹنگ تو کبھی فٹ پاتھ اور سڑک پر بلند و بالا عمارتوں کی بغیر نقشہ و منظوری کے تعمیر عدالتوں میں زیر بحث آتی رہی۔ سیوریج کی صورت حال کا اندازہ اِس بارش سے لگایاجاسکتا ہے جس نے اہلیان کراچی کو کئی روز تک گھروں میں قید کیے رکھا اور پھر مدد کے لیے پاک فوج کو طلب کرنا پڑا تب معلوم پڑا کہ جن نالوں سے بارشی پانی کا نکاس ہونا تھا اُن پر رہائشی و کمرشل عمارات کھڑی ہیں۔ سمندر کنارے بسنے والے اڑھائی کروڑ سے زائد لوگ پینے کے لیے پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں ۔ لوڈ شیڈنگ، تنگ و تاریک گلیاں غرضیکہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو کراچی میں نہ ہو، اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ تیسری نسل کو بھی بنیادی سہولیات میسر نہیں تو قطعی غلط نہ ہوگا۔
کراچی روشنیوں کے شہر سے مسائل کی آماجگاہ میں تبدیل ہو چکا ہے کیوں کہ سندھ پر راج کرنے والی تمام جماعتوں اور حکومتوں نے اپنے اپنے حصے کا کام نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا اگر کیا ہوتا تو آج کراچی ایسا منظر پیش کرتا اور نہ ہی مسائل کا ایسا انبار ہوتا۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد تو سندھ حکومت پر براہ راست ذمہ داری آگئی ہے کہ وہ کراچی کے مسائل حل کرے کیوں کہ پہلے جتنے بھی بلدیاتی و انتظامی نظام متعارف کرائے گئے سبھی کے سربراہان اپنے ہاتھ بندھے ہونے کا شکوہ کرتے گھروں کو رخصت ہوئے۔موجودہ سندھ حکومت بھی مرکز سے مالی پیکیج کا تقاضا کرتی رہی ہے تاکہ اِس کے ذریعے کراچی کے بنیادی مسائل کو حل کیا جاسکے لیکن پھر وہی شکوہ اور جواب شکوہ والی صورتحال۔ اگرچہ پاکستان
تحریک انصاف کی مرکزی حکومت نے کراچی ٹرانسفارمیشن پلان سمیت کئی ایک منصوبوں کا اعلان کیا اور اِن پر پیش رفت بھی کی لیکن اب چونکہ مرکز میں حکومت بدل چکی ہے اِس لیے توقع کی جانی چاہیے کہ وہ تمام منصوبے جو پچھلی حکومت کے دور میں شروع کیے گئے تھے اور مختلف وجوہات کی بنا پر تاخیر کا شکار رہے ، وہ منصوبے اب بغیر کسی تاخیر کے جلد ازجلد پایہ تکمیل تک پہنچ جائیں گے کیوں اب ان میں کوئی سیاسی یا نظریاتی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button