Column

فرح خان کی فلائٹ …… احمد نوید

احمد نوید
فرح لال چلی گئیں ، مگر جاتے جاتے بہت سے سوال اور شکو ک و شبہات چھوڑ گئیں ۔ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر محترمہ کو خاتون دوم ، فرنٹ ویمن آف فرنٹ لیڈی ، ملکہ کرپشن اور اس کے علاوہ بھی بہت سے لقابات سے نوازا گیا ۔ سوشل میڈیا کے صارفین یہ سوال کرتے دکھائی دئیے کہ کپتان کی ناک کے نیچے کرپشن کی شرمناک داستان رقم کر کے بھاگنے والی خاتون اول کی سہیلی کو روکا کیوں نہیں گیا؟
میراسوشل میڈیاصارفین،رپورٹرزاور اینکر پرسنز سے ایک سوال ہے کہ ایسی کونسی قیامت آگئی ہے اگر فرح خان کسی مجبوری کی وجہ سے دبئی چلی گئیں ۔ عین ممکن ہے فرح خان نے اپنے شوہر جمیل گجر کے گردے کی پتھری کا آپریشن کروانا ہو۔ عین ممکن ہے کہ فرح خان کسی ٹھنڈے مقام پر روزے رکھنے گئی ہوں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اُنہیں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کا شدید صدمہ پہنچا ہو اور ڈاکٹر نے اُنہیںسٹریس دُور کرنے کے لیے دبئی کے سمندر کے آس پاس تازہ ہوا کھانے کا مشورہ دیا ہو۔ بلکہ ایسا بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ فرح خان کا کوویڈ ٹیسٹ مثبت آگیا ہو اور خاتون اول سے سماجی دوری اختیار کرنے کے لیے خاتون دوم نے دبئی یا وہاں سے مزید کہیں آگے جانا مناسب سمجھا ہو۔
ناچیز نے یہ چند وجوہات گنوائی ہیں ۔ اِن کے علاوہ بھی ہزاروں وجوہات ہو سکتی ہیں۔ لہٰذا اپوزیشن رہنمائوں سے میری درخواست ہے کہ فرح خان کے اچانک غائب ہونے پر ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھیں۔ سوشل میڈیا صارفین بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ میڈیا اینکر پرسنز بھی اپنے فلاپ ٹاک شوز میں فرح خان کے کرپشن کے من گھڑت قصے سنا کر اپنے شوز کو ہٹ کرنے کی کوشش نہ کریں ۔
مجھے ایک لطیفہ یاد آرہا ہے ۔
دو پٹھان پانی پینے گئے تو گلاس اُلٹا پڑا تھا۔
پہلا پٹھان:اس کا تو منہ ہی بند ہے۔
دوسرا پٹھان:یہ تو نیچے سے بھی ٹوٹا ہوا ہے۔
اس لطیفے کی طرح مخالفین کرپشن کو کسی نہ کسی حوالے سے فرح خان اور خاتون اول سے جڑنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ دو سہیلیوں کے سو راز و نیاز ہوتے ہیں ۔ سو پردہ داری ہوتی ہے ۔ عین ممکن ہے
پاکپتن کی سخت گرمی کی وجہ سے فرح کے چہرے کی سکن بھدی پڑ گئی ہو۔ گوری رنگت میں فرق آگیا ہو۔ دبئی میں رنگ گورا کرنے کی اچھی کریمیں ملتی ہیں ۔ فرح خان نے ضرور خاتون اول سے مشور ہ کیا ہوگا کہ دبئی کے مالز سے جاکر اچھی کریمیں لے آتی ہوں ، جس پر سابق خاتون اول نے یقیناً کہا ہوگا کہ ہاں میرے لیے بھی لے آنا۔
اب اس بات کا اتنا بتنگڑ کیوں بنایا جا رہا ہے ۔ چھٹیوں پر جانے کا سب کو حق ہوتا ہے اور امیر لوگوں کو تو ڈبل حق ہوتا ہے کہ وہ کرپشن (اوہ سوری) اپنی محنت کی کمائی سے دبئی، امریکہ یا فرانس میں جا کربرینڈڈ مصنوعات خریدیں یا کوئی چھوٹا موٹا فلیٹ اپنے نام لکھوا لیں۔ارے پھر کیا ہوا اگر اُس فلیٹ کی مالیت کروڑوں ڈالر میں ہو سکتی ہے ۔
بہر کیف اب بات یہ ہے کہ جو ہونا تھا ہو چکا ۔ مٹی پائو ۔ خاتون اول کی سہیلی اوکاڑہ سے تھیں یا دیپالپور سے ۔ وہ گوگی کے نام سے مشہور تھیں یا کسی اور لقب سے ۔ وہ سبزہ زار رہی یا لاہور ڈیفنس کے وائے بلاک میں ۔ کمشنر ڈی سی کے تبادلوں اور تقرریوں پر وہ کتنے کروڑ لیتی تھیں اُس میں سے کتنا حصہ اُس کا ہوتا تھا اور کتنا پاکپتن کی ایک معتبر فیملی کو بھیجا جا تا تھا۔ اِن ساری باتوں میں اب کیا رکھا ہے ۔
گزشتہ دنوں مطیع اللہ جان کے اس سوال پر کہ فرح خان کیوں بھاگی ، سابق وزیر اطلاعات فواد چودھری اُن سے الجھ پڑے ۔ اب ایک صحافی نے اگر فرح خان کے بھاگنے کی وجہ پوچھ ہی لی ہے تو فواد چودھری کو جذباتی ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ میری صحافی صاحبان سے بھی گزارش ہے کہ فرح خان کے معاملے پر مٹی ڈالیں ، کوئی اور بات کرلیں۔ عین ممکن ہے فرح خان بشریٰ بی بی کو خراج عقیدت کے لیے نذرانہ پیش کرتی رہی ہوں۔
نذرانے کرپشن نہیں ہوتے، وہ تو بس ہدیہ عقیدت ہوتے ہیں ۔ عین ممکن ہے خان صاحب کو بھی اُن نذرانوں کا علم ہو۔ جیسے اپوزیشن اور مخالفین خان صاحب کی کچھ اے ٹی ایم مشینوں کا اکثر تذکرہ کرتے ہیں ۔اگر کچھ سرکاری معاملات میں ہلکی پھلکی مداخلت سے ، یا کچھ ہلکے پھلکے تبادلوں سے اُس اے ٹی ایم میں مال غنیمت ڈالا جا سکتا تھا تو قباحت کیا تھی ۔
جی ہاں آخر چھوٹے چھوٹے جھگڑوں اور الجھنوں پر لڑنے اور سوال کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ آگے کونسے کام اصول اور قانون کے مطابق ہو رہے ہیں ۔ ہمارے ملک میں حکومتیں ختم ہو جاتی ہیں ، وزارتیں ختم ہو جاتی ہیں مگر سرکاری گھر اور گاڑیاں کئی ہفتوں ،مہینوں اور کبھی کبھار سالوں تک انہی وزراء کے پاس رہتی ہیں ۔ ججز ریٹائرڈ ہوتے ہیں تو اَن گنت مراعات سے اُنہیں نوازا جاتا ہے ، کبھی کسی نے سُنا کہ عدالتوں میں ریٹائرڈ ججز کی مراعات کم کرنے کے لیے کیس سُنا گیا ہو۔ جب اور جس دن کبھی قومی یا صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اپنی تنخواہ اور مراعات میں اضافے کابل پیش کرتے ہیں تو حکومتی اور اپوزیشن کے ارکان مشترکہ طور پر بلا تاخیر اُسے منظور کر وا لیتے ہیں ۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں فہمیدہ مرزا نے پچانوے کروڑ روپے کا اپنا قرضہ معاف کروایا ۔ کیا ماضی کی حکومتوں میں بھی یہی سب کچھ نہیں ہوتا رہا؟ یہ وہ بد نصیب ملک ہے جہاں با اختیار لوگ کروڑوں اور اربوں تو ایسے کھا جاتے ہیں ، جیسے چند سو روپے ہوں ۔ لہٰذا ایسا ہی فرح خان نے کیا۔ جو ماضی میں ہوتا رہا وہی اگر آج بھی ہو رہا ہے تو اچنبے والی بات کیا ہے ؟ ماضی کی حکومتوں میں اگر کرپشن ہوئی ، وہی روایت اگر آج بھی قائم ہے تو کونسی قیامت آگئی ہے ۔
پاکستان میں انہونی اور اچنبے کی بات اُس دن ہوگی ۔ جب اس ملک کا ہر با اختیار شخص اپنی طاقت اور اختیار کو نہ صرف دیانت داری سے استعمال کرے گا بلکہ اپنی طاقت ، اختیار اور خود کو ملنے والی بادشاہوں جیسی مراعات ریاست پاکستان اور اِس کے غریب عوام کو تفویض کر دے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button