ادبتازہ ترینخبریں

وہ مشہور شخصیات جن کی لاہور کو دوبارہ دیکھنے کی حسرت پوری نہ ہوئی

کرشن چندر روزانہ داتا صاحب کو سلام کر کے گزرتے، اپنا پتہ” داتا کے سائے میں” بتاتے۔ مولانا صلاح الدین احمد، باری علیگ اور عاشق بٹالوی کے ساتھ گپ شپ کرتے انارکلی سے گزرتے تین گھنٹے لگ جاتے۔

کرشن کا پہلا افسانہ” سادھو” 1929 میں ایف سی کالج میگزین” فولیو” میں چھپا۔ علامہ اقبال پر پی ایچ ڈی کرنا چاہتے تھے، سناپسس بھی پیش کیا لیکن یہ کہہ کر اجازت نہیں دی گئی کہ زندہ شخصیت پر نہیں ہوسکتی۔ کرشن کہتے تھے، لاہور میں رہ کر کوئی بوڑھا نہیں ہوسکتا، ہوتا ہے تو منڈی بہاء الدّین، بستی چھپڑاں والا یا چک 420 چلا جائے۔

جے ایس سنت سنگھ قرآن مجید چھاپتے تھے۔ ان کی دکان میں جوتے اتار کر جانا پڑتا تھا۔احمد راہی کا مجموعہ "ترنجن” چھپا تو کرشن نے پنجابی میں مبارک باد کا خط لکھا اور کہا کہ پنجابی رسالہ نکلنا چاہیے، وہ بھی پنجابی میں لکھیں گے۔ کرشن لاہور میں بھگت سنگھ کی سوشلسٹ پارٹی کے رکن اور بھنگیوں کی انجمن کے صدر بھی بنے۔

راجندر سنگھ بیدی کہتے تھے عشق کے لیے لاہور سے بہتر دنیا میں کوئی اور جگہ نہیں۔ وہ بچپن میں قتل ہوتا دیکھ کر گونگے ہوگئے تھے۔ پھر ایسا بھی ہوا کہ ایک انقلابی پارٹی کے بچوں کے شعبے بال سبھا کے رکن بنے تو ان کو ایک انگریز کے قتل کا مشن دے دیا گیا لیکن ان سے ہو نہیں سکا۔ بیدی نے ادبی زندگی کا آغاز محسن لاہوری کے نام سے کیا۔ ڈاک خانے میں کلرک ہوئے تو کام کے دوران کہانیاں لکھتے رہتے۔ ایک بار رقم وصول کیے بغیر منی آرڈر بک کر دیا۔ شام کو حساب کیا تو تنخواہ جتنے پیسے شارٹ تھے۔

ایڈریس نوٹ کر کے اس دن منی آرڈر کرنے والے ہر شخص کے گھر گئے۔ مطلوبہ شخص ملا تو اس نے کہا، سردار جی آپ کے سارا دن بارہ بجے رہتے ہیں۔ منٹو نے ایک افسانے میں ڈاک خانے میں مہریں لگانے کی طرف اشارہ کر کے بیدی پر چوٹ کی تو بیدی اور دیندر ستھیارتھی نے افسانے میں منٹو کا ریکارڈ لگا دیا۔

کنہیا لال کپور پیدا تو سمندری میں ہوئے تھے، پڑھنے لاہور آئے۔ قد بہت لمبا تھا، داخلے کے انٹرویو کے لیے پرنسپل پطرس بخاری کے سامنے پیش ہوئے تو انہوں نے پوچھا، اتنے ہی لمبے ہیں یا آج خاص اہتمام کرکے آئے ہیں؟ بعد میں وہ پطرس کے چہیتے شاگرد بن گئے۔ بالآخر جب لاہور چھوڑنا پڑا تو کپور کو بھارتی پنجاب کے چھوٹے سے قصبے موگا میں پناہ ملی جہاں کے لینڈ اسکیپ میں ریت اور سرکنڈے نمایاں تھے۔ لوگ کہتے آپ مشہور آدمی ہیں، اس ویرانے سے کسی بڑے شہر کیوں نہیں چلے جاتے تو کہتے، جب تک ہندوستان لاہور کا ثانی پیدا نہیں کرتا، میرے لیے یہاں کے تمام شہر اور قصبے ایک جیسے ہیں۔

کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، کنہیا لال کپور تینوں لاہور کی ادبی زندگی میں سرگرم رہے، تینوں کی پہلی کتابیں لاہور سے چھپیں۔ تینوں لاہور کی یاد میں تڑپتے رہے، تینوں لاہور کو پھر دیکھنے کی حسرت لیے چل بسے۔

(محمودُ الحسن کی کتاب "لاہور: شہرِ پُرکمال” سے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button