Column

عمران حکومت کے منفی پہلو ….. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان
عمران خان پاکستان کی مسند اقتدار پر قریباً پونے چار سال متمکن رہے ہیں۔ عمران خان کا دور اقتدار چند وجوہات کی بنا پر اپنے پیشروئوں سے مختلف رہا۔ خاص طور پر نئے پاکستان کا نعرہ، ملکی معیشت کا بہتر نہ ہونا اور احتساب کی بڑی بڑی باتیں اس دور کا خاصہ رہے۔ بار بار وزرا، مشیروں اور بیوروکریسی میں تبدیلیاں، کرپشن کے خلاف دعوے، اپوزیشن رہنمائوں کے خلاف سخت مقدمے اور ان کی بے نتیجہ اور خالی لفاظی سے بھرپور پیروی نے عمران خان کے خلاف ایک اندرونی محاذ بھی کھول دیا تھا، جس کے بھیانک نتائج عوام نے بھی دیکھے۔ عمران حکومت کے آخری دنوں میں مبینہ دھمکی آمیز کیبل یا مراسلے نے بھی بظاہر ان کو فی الحال کوئی سیاسی فائدہ نہیں دیا لیکن جب ہم ان کے دور اقتدار پر نظر ڈالتے ہیں تو اچھی کم اور زیادہ تر منفی چیزوں کا امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ بھارت نے 2019 میں بالاکوٹ میں فضائی حملے کیے جس کے جواب میں پاکستان نے آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کرکے بھارتی مگ 21 کو پاکستانی فضائیہ نے مار گرایا اوربھارتی کیپٹن ابھی نندن کو بھی پکڑ لیا۔ اس واقعے کے بعد عمران خان نے خیر سگالی کے طور پر ابھی نندن کو بھارت کو واپس بھیج دیا۔اس کے علاوہ مسئلہ کشمیر پر عالمی فورمز میں آواز اٹھانا اور سکھ یاتریوں کے لیے کرتارپور راہداری کھولنا بھی قابل تعریف اقدامات ہیں۔
2021 مارچ میں سابق وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔ اس وقت انہوں نے 172 کی بجائے 178 ووٹ حاصل کیے تھے۔ انہوں نے یہ فیصلہ سینیٹ انتخاب میں اسلام آباد کی جنرل نشست سے حزب اختلاف کے مشترکہ امیدوار اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی جیت کے بعد کیا تھا۔ یوسف رضا گیلانی نے مشیر برائے خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو شکست دی تھی جس کے بعد ان سے اعتماد کا ووٹ
لینے کا تقاضہ کیا گیا۔اس وقت خوشی سے سرشار عمران خان نے اپنی ٹیم اور اراکین کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے پارلیمان میں ان کا ساتھ دیا عین اسی طرح جب حال ہی میں پی ٹی آئی سے کچھ اراکین منحرف ہوئے تو ایک خودغرض مصلح کی طرح اس کو ہارس ٹریڈنگ اور ضمیروں کی خرید وفروخت کا الزام دے دیا۔ سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا دور اقتدار ان کے بیانات کی وجہ سے بھی مشہور رہا ہے جس میں بعض اوقات متنازع بیانات اور زبان کا پھسلنا قابل ذکر ہیں۔ کرکٹ میں جارحانہ بولنگ کے لیے جانے جانے والے عمران خان نے سیاست میں بھی یہی عادت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستانی سیاست میں زبان کا استعمال ماضی میں بھی کوئی بہت اچھا تجربہ نہیں رہا لیکن انہوں نے ماضی کی اس منفی روش کو بھی آگے بڑھایا۔
عمران خان کے غیر محتاط بیانات میں محض سیاست دانوں ہی نہیں بلکہ ریپ جیسے معاملے، اسامہ بن لادن کو شہید کہنے اور ہزارہ قوم کو انہیں بلیک میل نہ کرنے جیسے بیانات بھی شامل ہیں جبکہ جانور غیر جانبدار ہوتے ہیں جیسی بات بھی ان کے حق میں نہیں گئی۔ بعد میں اس کی انہیں وضاحتیں بھی دینا پڑیں۔ سیاسی مخالفین کو چور، ڈاکو، ڈیزل اور چوہے جیسے القابات سے بھی نوازا اور اسی کام کو اپنی بہترین کارکردگی سمجھا اور اس کو اپنا کریڈٹ ثابت کرنے کی ناکام کوششیں کیں۔ پھرجب ان کی جماعت کے درجن بھر ناراض اراکین قومی اسمبلی اچانک اسلام آباد کے سندھ ہاؤس میں ٹی وی اینکروں کو ان کے مخالف بیانات دیتے نظر آئے اور انہوں نے کھل کر اپنی جماعت خصوصاً عمران خان کی پالیسیوں پر تنقید کی تو سابق وزیر اعظم اور ان کے شعلہ نوا وزرا نے ان اراکین کی وہ درگت بنائی کہ جیسے انہیں ان کی واپسی کی کوئی امید نہ تھی پھر عمران خان نے ناراض اراکین کو منانے کی بجائے اپنی ہی جماعت کے ناقد اراکین کی طرف توپوں کا رخ کر دیا اور کہا کہ ان کے بچے سکول نہیں جاسکیں گے، ان کی شادیاں نہیں ہوسکیں گی اور انہوں نے کروڑوں روپے لے کر اپنے ضمیر بیچے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر کوئی اور منصف مزاج سیاست دان ہوتا تو شاید ایسا نہ کرتااور  کہتا کہ یہ تو ہمارے اپنے گھر کے لوگ ہیں اور گھر میں بھی اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ہم انہیں منا لیں گے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں کہا گیا۔ وہ بھی ایک ایسے وزیراعظم کی جانب سے جس کی پارلیمان میں سادہ اکثریت بھی نہیں تھی۔جس سے ان اراکین کی ناراضی کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی۔عمران خان کے لیے حکومت قائم کرنے کے بعد سب سے بڑا چیلنج قومی معیشت کی بہتری اور مہنگائی جیسے مسائل رہے۔ بار بار وزرا اور مشیروں کو بدلنے کے باوجود حالات میں وہ بہتری دیکھنے میں نہ آسکی جس کی عوام کو امید تھی۔ سب سے پہلے اسد عمر کو وزیر خزانہ مقرر کیا لیکن وہ آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آؤٹ پیکیج وقت پر نہ کرسکنے کے الزام میں اپریل 2019 میں تبدیل کر دیے گئے۔ ان کی جگہ عبدالحفیظ شیخ کو لایا اور پھر جلد ہی ہٹایا گیا اور وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر کو خزانہ کی وزارت بھی سونپ دی گئی۔ حماد اظہر تحریک انصاف حکومت کے تیسرے وزیر خزانہ تھے۔ اس کے چند روز بعد موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین جو اس سے قبل بھی دیگر حکومتوں کا حصہ رہے تھے، کو لایا گیا۔ کابینہ میں بار بار تبدیلیوں سے یہ تاثر تقویت پکڑتا رہا کہ عمران خان کی حکومتی ٹیم میں نتائج دینے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ایسے میں لگا کہ عمران خان اور ان کی قریبی ساتھیوں کی ٹیم کو احساس ہی نہیں تھا کہ حکومت میں آنے کے لیے کیا کیا تیاریاں کرنا پڑتی ہیں۔ القصہ عمران خان سیاست اور حکومت کی اپنی پہلی اننگ میں اپنی ٹیم کی وجہ سے کافی مار کھا چکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب انہیں دوسری باری کا موقع ملتا بھی ہے یا نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button