Column

میمو سے لیٹر گیٹ تک …. روشن لعل

روشن لعل
عمران خان ملک کے منتخب وزیر اعظم سے خود ہی ایک ایسے وزیر اعظم بن گئے جن کے لیے سوشل میڈیا پر ’’معلق‘‘ وزیر اعظم کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ اس معلق وزیر اعظم کو پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کی بدولت پھر سے منتخب وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان کردیا ۔ زیر تحریر کالم شائع ہونے تک عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے ساتھ کونسا سابقہ لگ چکا ہوگا ۔یہ بات طے ہے کہ آئندہ عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے ساتھ جو بھی سابقہ لگے وہ اسے اس خط کا نتیجہ ضرور قرار دیں گے جوانہیں امریکہ میں تعینات سابق پاکستانی سفیر نے لکھا اور جس سے انہوں نے مبینہ امریکی سازش کے تانے بانے بنے۔ پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کی کوششوں سے منتخب وزیر اعظم کے طور پر بحالی کے بعد عمران خان نے جو تقریر کی اس میں انہوں نے تمام زور اس بات پر دیا کہ ان کے خلاف عدم اعتماد تحریک کا تمام ترسامان امریکہ نے پیدا کیا اور جو لوگ بھی عدم اعتماد کی تحریک میں سرگرم ہوئے انہوں نے مبینہ طور پر امریکی ایما پر ملک اور قوم کے ساتھ غداری کی۔ عمران خان نے اپوزیشن کو غداری کا طعنہ دیتے ہوئے مزید جو کچھ بھی کہا اور اس کے لیے جو دلائل پیش کیے ،ان کی جھلک عمران خان کی اپنی زندگی اور خاص طور پر ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں واضح طور پر نظر آتی ہے۔
عمران خان کی اس تقریر کے متعلق ایک معروف بیانیہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تقریر میں جو موقف پیش کیا، اس کا دفاع وہ اپنے ناقد میڈیا پرسنز کے سامنے کسی طرح بھی نہیں کر سکتے ۔عمران خان کے متعلق یہ خیال عام ہے کہ وہ اپنے موقف کی مضبوطی ظاہر کرنے کے لیے اسے صرف ایسے خیرخواہ صحافیوں کے سامنے تو پیش کر سکتے ہیں جو ان کی ہاں میں ہاں ملانے کے عادی ہیں ۔ جہاں تک عمران خان کے خیر خواہ میڈیا پرسنز کا تعلق ہے تو ان کی حالت یہ ہے کہ وہ ا پنے یو ٹیوب چینل پر اکیلے بیٹھ کر تو کچھ بھی کہتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر جونہی کبھی کسی ٹی وی ٹاک شو میںان کا سامنا کسی برعکس موقف رکھنے والے بندے سے ہوتا ہے تو ان کے پاس آئیں بائیں شائیں کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ ایسے ہی میڈیا پرسنز کے متعلق یہ باتیں سننے میں آرہی ہیں کہ کل تک وہ جن ٹی وی چینلوں پر دندناتے پھرتے تھے آج انہیں وہاں سے نکال باہر کیا جارہا ہے ۔ جن کے نکالے جانے
کی خبریں گرم ہیں ان کے متعلق بعض ذرائع سے یہ بھی سننے میں آیاہے کہ انہیں اپنے ساتھ چپکائے رکھنے کی مختلف میڈیا ہائوسز کی مجبوری انہیں ملنے والے سرکاری اشتہارات تھے ۔ خیر اس معاملے میں زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی ان دنوں پاکستان کے اکثر لوگوں کا زیادہ وقت ٹی وی چینلوں پر ہونے والے مباحثوں کو دیکھتے ہوئے گزرا ، جو کچھ لوگوں نے دیکھا اسے مد نظر رکھ کر وہ بہتر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جن میڈیا پرسنز کے متعلق یہاںزیر گردش خبروں کا ذکر کیا گیا ہے وہ خبریں کس حد تک درست یا غلط ہیں۔
عام لوگوں کے اندازے جو بھی ہوں مگر عمران خان اور ان کے خیر خواہ اس بات پر بضد ہیں کہ ان کے خلاف امریکہ سازش کر رہا ہے اور امریکہ کے ایما پر ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے والے غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ عمران خان اپنے خلاف آنے والی عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے والوں پر سرعام غداری کے الزامات لگا تے رہے ہیںاور کسی کا بھی جواب سنے بغیر خود ہی اپنے موقف کے وکیل اور جج بن کر اپنے حق میں فیصلہ چاہتے تھے۔ اپنے حق میں فیصلے کے لیے انہوں نے ایک ایسے بندے کو ایک انکوائری کمیشن کا سربراہ نامزد کیا جس کی طرف
سے پہلے ہی عمران خان کے موقف کی تائید سامنے آچکی تھی۔ عمران خان کے موقف کی تائید کے باوجود اس بندے میں اتنی جرأت پیدا نہیں ہو سکی کہ وہ خاص مقصد کے لیے بنائے گئے انکوائری کمیشن کی سربراہی قبول کرتا۔ عمران خان نے اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران جس طرح ایک لیٹر سکینڈل کو غداری کی کہانی سے جوڑا ہے، اسے دیکھتے ہوئے میمو سکینڈل یاد آرہا ہے ۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے میمو گیٹ سکینڈل کا فیصلہ 14فروری2019کو سنایا تھا۔ اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ان الفاظ کے ساتھ یہ کیس نمٹایا تھا کہ’’پاکستان اتنی کمزور ریاست نہیں جو ایک میمو سے لڑکھڑا جائے۔یہ کیس 8 برس تک زیر التوا رہا، اگر درخواست گذار نہیں آتے تو ہم کیوں اپنا وقت ضائع کریں۔ اب سپریم کورٹ کو اس کیس سے کوئی غرض نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کیس کی تفصیل پڑھ کربہت حیرت ہوئی۔ آج پاکستان میں افواج، جمہوریت اور آئین کمزور نہیں بلکہ بہت مضبوط ہیں، اس لیے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میمو کے حوالے سے درخواستیں عجلت میں دائر کی گئی تھیں‘‘۔یہ تو میمو گیٹ کیس کے فیصلے کا مختصر خلاصہ ہے اب آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ کیس شروع کیسے ہوا۔ یہ بات جھٹلائی نہیں جاسکتی اس کیس کو میاں نوازشریف 23 نومبر2011کو سپریم کورٹ میںلے کر گئے مگر پاکستان میں اس کیس کا ذکر سب سے پہلے عمران خان نے30 اکتوبر 2011 کو لاہور میں کیے گئے تحریک انصا ف کے جلسے میںاسی طرح غداری کے الزامات لگاتے ہوئے کیا تھا جس طرح وہ اب لیٹر گیٹ کے حوالے سے اپنے سیاسی مخالفوں پر غدارقرار دے رہے ہیں۔ میمو گیٹ میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا خلاصہ سب کے سامنے ہے ۔ گو کہ میاں نوازشریف اس کیس کو عدالت میں لے کر گئے مگر بعدازاں اس پر ان کی معذرت بھی سامنے آئی تھی۔ میاں نوازشریف کی معذرت کے بعد میمو گیٹ کا یہاں سب سے پہلے ذکر کرنے والے اور اس کے مبینہ ملزموں کو غدار قرار دینے والے عمران خان اس کیس میں پارٹی بن سکتے تھے ، یہ کیس آٹھ برس تک زیر التوا رہا مگر اکتوبر 2011 میں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے دوسروں کو غدار قرار دینے والے کو بعد ازاںاپنی باتیں کبھی یاد نہ آئیں۔ جو لوگ میمو کیس کا انجام دیکھ چکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ لیٹر گیٹ آخر کار میمو سے بھی بڑی فلاپ کہانی ثابت ہوگا۔ اس طرح کی کہانیوں کے فلاپ ہونے سے ان کہانیوں کے خالقوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ آخر کار فلاپ ہونے والی یہ کہانیاںوقتی طور پر ان کے تخلیق کاروں کے سیاسی مقاصد پورے کر دیتی ہیں۔ ان کہانیوں کے خالقوں کا مقصد صرف ایک ہوتا ہے کہ وہ عوام کو بیوقوف بنائے رکھیں ۔ حیرت ہے کہ جو لوگ پہلے میمو گیٹ سکینڈل سے بیوقوف بنے تھے وہی لوگ اب لیٹر گیٹ سے بیوقوف بنتے نظر آرہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button