Column

ماہِ رمضان میں خون کا عطیہ … مظہر چودھری

یوں تو پاکستان میں رضاکارانہ خون کے عطیات دینے کا رجحان عام دنوں میں بھی بہت کم ہے لیکن رمضان کے مہینے میں رضا کارانہ خون عطیہ کرنے کی شرح میں تشویش ناک حد تک کمی دیکھنے میں آجاتی ہے۔ عام لوگ تو دیگر مہینوں کی طرح اس ماہ میں بھی اپنے قریبی رشتہ دار مریضوںیا حادثے کا شکار افراد کے لیے متاثرہ مریض یا فرد کے رشتہ داروں اورجان پہچان رکھنے والے افراد کے ذریعے خون کے عطیات کا بندو بست کر ہی لیتے ہیںلیکن زیادہ تر رضا کارانہ خون کے عطیات پر انحصار کرنے والے تھیلے سیمیا جیسے خون کے امراض کے شکار بچوں کو رمضان کے مہینے میں خون کی فراہمی میں شدید کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں سالانہ 18 سے 25لاکھ بلڈ یونٹس کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ایک اندازے کے مطابق ملک بھر میں یومیہ 8 سے 10ہزار بلڈ یونٹس عطیہ کیے جاتے ہیں ۔ طلب اور رسد کے قانون کو سامنے رکھا جائے تو یہ تعداد حوصلہ افزاء ہے لیکن اس حوالے سے اہم اور قابل غور بات یہ ہے کہ عطیہ دہندگان کی غالب اکثریت محض اپنے عزیز واقارب یا جان پہچان رکھنے والے مریضوں کے لیے ہی سامنے آتی ہے۔ پاکستان میں خون کی 90فیصد سے زائد ضروریات متاثرہ مریض یا فرد کے رشتہ داروں یا جان پہچان رکھنے والے افراد کے ذریعے پوری ہوتی ہیں۔ خون کی کل ضرورت کا 5سے7 فیصدپیشہ وار انہ بلڈ ڈونر جبکہ محض 2 فیصد رضا کارانہ بلڈڈونر سے حاصل کیا جاتاہے ۔ خون کے سرطان ، تھیلے سیمیا اورہیموفیلیا جیسی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کومستقل بنیادوں پر خون کی تبدیلی اور بلڈ ٹرانسفیوژن کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پاکستان میں رضاکارانہ خون کے عطیات کی شرح انتہائی کم ہونے سے ان امراض میں مبتلا بچوں اور بڑوں کی زندگی ہر وقت خطرے میں مبتلا رہتی ہے۔پاکستان میں تھیلسمیا کے کل ایک لاکھ بچوں کی اکثریت کو 17دن بعد خون لگانا ضروری ہوتا ہے۔دس فیصد یعنی دس ہزار بچوں کو سات دنوں میں خون لگتا ہے جب کہ دو فیصد یا دوہزار بچوں کو ہر دو دن بعد خون دینا ضروری ہوتا ہے۔
پاکستان میں تھیلسمیا کے مریض بچوں کے لیے عام طور پر تین طریقوں سے خون جمع کیا جاتاہے۔ یا تو مریض کے لواحقین کسی جاننے والے کو ساتھ لاتے ہیںاور وہ خون عطیہ کرتے ہیںیا کچھ لوگ خود ہسپتال آکر خون کا عطیہ دیتے ہیں ۔تیسرا طریقہ یہ ہے کہ خون جمع کرنے والے ادارے سڑکوں یا تعلیمی اداروں میں موبائل کیمپ لگاکر لوگوں یاطلبہ و طالبات سے خون عطیہ کرنے
کی اپیل کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں صرف 62 ممالک ایسے ہیں جہاں خون کے 100فیصد عطیات رضاکارانہ بنیادوں پر اکھٹے ہوتے ہیں۔ دنیا کے 70ممالک میںدرکار بلڈ کی کل مقدار کا 50 فیصد فیملی اور پیشہ وارانہ ڈونر سے پورا کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان سمیت دنیا کے 34ممالک ایسے بھی ہیں جہاں مختلف بیماریوں میں مبتلامریضوں اور زخمیوں کوخون کی درکار مقدار کے 75 فیصد سے زائدفیملی اورپیشہ وارانہ ڈونرپر انحصارکرنا پڑتا ہے۔بلند آمدن والے ممالک میںفی ایک ہزار افراد میں سے37 افراد رضاکارانہ طور پرخون عطیہ کرتے ہیں جبکہ درمیانی اورکم آمدنی رکھنے والے ممالک میں یہ شرح بالترتیب 12 اور4 افراد فی ہزار ہے۔پاکستان سمیت کم آمدنی والے ممالک میںرضاکارانہ بنیادوںپرخون کے عطیات کم دینے کی بنیادی وجوہات میں غربت ، صحت عامہ کی مجموعی صورتحال کا ابترہونااور عوامی سطح پر عطیات خون کے حوالے سے مناسب آگاہی کا فقدان ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی اور ٹریفک حادثات کی زیادہ شرح، تھیلسمیا کے مریضوں کی زیادہ تعداد، حمل کے دوران بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں اور دیگر عوامل کی وجہ سے خون کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔کسی بھی ملک میں خون کی مجموعی ضرورت کو پوراکرنے کے لیے اس ملک کی کم ازکم دوفیصدآبادی کو سال میں
باقاعدگی سے تین سے چارمرتبہ خون دینا چاہیے لیکن ماہرین کے بقول پاکستان کو جس غیر معمولی صورتحال کا سامنا ہے، وہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ یہاں کم ازکم تین فیصد آبادی سال میں تین سے چار باررضا کارانہ خون کے عطیات دے۔ طبی ماہرین کے مطابق 18سے 60سال کی عمر کے افراد سال میںتین سے چار بار خون کا عطیہ دے سکتے ہیں۔ایک ریسرچ کے مطابق سال میں دو سے تین بار خون کا عطیہ دینے والے افراد کو کینسر سمیت کئی ایک موزی امراض لاحق ہونے کا خطرہ بہت حد تک کم ہو جاتا ہے ۔ ڈاکٹروں کے مطابق صحت مند افراد کو عام دنوں کی طرح رمضان کے ایام میںخون کے عطیات دینے سے کسی بھی قسم کی جسمانی کمزوری یا طبی پیچیدگی کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔خون کے عطیات دینے کے حوالے سے واحد قابل توجہ بات یہ ہے کہ خون کا عطیہ دیتے ہوئے خون کی مناسب اسکریننگ اور محفوظ ترین انتقال خون کے طریقہ کار بارے اچھی طرح تحقیق کر لینی چاہیے۔ تلخ حقائق یہ ہیں کہ پاکستان میں جہاں ایک طرف خون کی دستیابی ضرورت سے کم ہونے کے باعث مختلف بیماریوں میں مبتلا مریضوں اورحادثات میں شدید زخمی ہونے والے افرادکی قیمتی جانوں کا تحفظ و بچائو میں مشکلات درپیش آ رہی ہیں، وہیںدوسری طرف خون کی منتقلی کا عمل تسلی بخش نہ ہونے سے سنگین نوعیت کی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔
اگرچہ عالمی ادارہ صحت کے ملینیم ڈویلپمنٹ گولز کے مطابق پاکستان نے بھی 2020ء تک رضاکارانہ خون کے 100فیصدہدف کو ممکن بنانا ہے لیکن سرکاری و غیر سرکاری اداروں کی ترجیحات اور سنجیدگی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کے دور دور تک آثار نظر نہیں آتے کہ پاکستان اگلے 20 سالوں تک بھی یہ ہدف پورا کر سکے ۔ گزشتہ کئی سالوں سے لائف فائونڈیشن سمیت کئی تنظیمیں باقاعدگی سے ورلڈ بلڈڈونر ڈے کا انعقاد کرنے کے ساتھ ساتھ رضاکارانہ بنیادوں پر بلڈ کی فراہمی کے لیے قابل ستائش کوششیں کر رہی ہیں لیکن تربیت یافتہ عملے اور فنڈز کی کمی کی وجہ سے انکی کوششیں صحیح طور پر بار آور ثابت نہیں ہو پا رہیں ۔حکومتی ونجی اداروں کی جانب سے رضاکارانہ خون دینے والوں کی خدمات کو سراہنے سے ملک میں رضاکارانہ بلڈڈونرز کی تعداد خاطر خواہ بڑھائی جا سکتی ہے۔ معاشرے میں رضا کارانہ بنیادوں پر خون کے عطیات کی شرح بڑھانے کے لیے نہ صرف مذہبی، سماجی اور سیاسی رہنمائوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا بلکہ حکومتی سطح پر اخبارات ، ریڈیو اور چینلزکے توسط سے لوگوں کو بلڈ ڈونیشن کے بارے وقتاً فوقتاً ضروری آگاہی اور ترغیبیں دیتے رہنا ہوگا۔ پاکستان میں کئی سالوں سے بے نظیر بھٹو شہید کی برسی پر خون کے رضا کارانہ عطیات دیئے جانے کی قابل ستائش پریکٹس جاری ہے۔ ایسی ہی پریکٹس رضا کارانہ بنیادوں پر خون کے عطیات جمع کرنے والی سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے رمضان کے مہینے میں کی جائے توشاید اس ماہ میں تھیلے سیمیا کے مریضوں سمیت دیگر افراد کو خون کی فراہمی میںایسی شدید مشکلات درپیش ہی نہ آئیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button