گرینڈ الائنس کی کہانی اور پی ٹی آئی کی ناکامی … امتیاز عاصی
درحقیقت 2018 کے انتخابات میں اقتدار میں آنے والی پی ٹی آئی حکومت کے خلاف جمعیت علماء اسلام (ف)کے امیر مولانا فضل الرحمان پہلے روز سے سرگرم تھے۔اس مقصد کے لیے انہوں نے اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ کبھی وہ آصف علی زرداری سے ملاقاتیں کرتے اور کبھی میاں شہباز شریف سے ملاقات کرکے عمران خان کی حکومت کے خلاف گرینڈ الائنس بنانے کی جدوجہد میں لگے رہے۔ اس حقیقت سے سب واقف ہیں کہ آصف علی زرداری اور میاں شہباز شریف کے درمیان آپس میں بات چیت تک نہیں تھی۔یہ مولانا کا کمال تھاجن کی کوششوں سے دونوں رہنمائوں کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوا اور بالآخر مولانا تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا گرینڈ الائنس بنانے میں کامیاب ہوگئے۔پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت نہ ہونے کی بنا پر دیگر چھوٹی جماعتوں سے ان کی شرائط پر اتحاد کرکے مخلوط حکومت بنانی پڑی۔
سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ مخلوط حکومتوں کا تجربہ زیادہ کامیاب نہیں رہا۔سیاست دان مخلوط حکومت بنانے کے لیے وقتی طور پر حلیف جماعتوں کی شرائط تو مان لیتے ہیںلیکن آگے چل کر حلیف جماعتوں کی شرائط پورا کرنے میں ناکامی ہوتی ہے تو حلیف جماعتیں اپوزیشن کی طرف دیکھنا شروع کر دیتی ہیں۔ کچھ اسی طرح کی صورت حال کا سامنا عمران خان کو بھی رہا۔ ہماری سیاست کا المیہ ہے کہ انتخابات میں منتخب ہونے کے بعد وزارت ہر رکن کی کمزوری ہوتی ہے ۔حکومت کی لاکھ کوشش ہوتی ہے کہ وہ حلیف جماعتوں کو کسی نہ کسی طریقہ سے
ایڈجسٹ کرے لیکن اراکین کی خواہشات کے آگے حکومت بے بس دکھائی دیتی ہے۔ہم سب سے پہلے تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ اتحاد کرنے والے بی این پی کے سربراہ اختر مینگل کی بات کرتے ہیں۔اختر مینگل ہر حکومت کے اتحادی ہوتے ہیں۔کچھ ان کے مطالبات کی نوعیت اس طرح کی ہوتی ہے جنہیں پورا کرنا وزیراعظم کی دسترس میں نہیں ہوتا۔ ان کاایک بڑا مطالبہ بلوچستان کے لاپتہ افراد کی بازیابی کا ہے۔ دوسرا مطالبہ بلوچستان سے افغان پناہ گزنیوں کی وطن واپسی کاہوتا ہے۔بدقسمتی سے وزیراعظم عمران
خان، اختر مینگل کے دونوں مطالبات کو پورا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔جہاں تک ایم کیو ایم کا تعلق ہے ان کے مطالبات میں ایک بڑا مطالبہ یہ ہوتا ہے کراچی اور حیدرآباد کلی طور ان کے حوالے کردیا جائے۔مسلم لیگ قاف نے تحریک انصاف سے اتحاد تو کر لیا لیکن اس کی نظریں پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے کم عہدے پر نہیںتھیں۔ عمران خان نے چودھری پرویز الٰہی کو سپیکر پنجا ب اسمبلی کاعہدہ دے کر وقتی طور پر رام تو کر لیا لیکن اس کے باوجود قاف لیگ کی نظر وزارت اعلیٰ پر لگی رہی۔ گجرات کے چودھریوںکی حتی المقدور کوشش رہی کہ وہ کسی طرح سردار عثمان بزدار کی جگہ لے لیں۔ حکومت کے خلاف اپوزیشن کی عدم اعتماد کے دوران مسلم لیگ قاف جس طرح ڈانواں ڈول رہی اس امر کا ثبوت ہے کہ حلیف جماعتوں کو راضی رکھنا کسی حکمران کے بس کی بات نہیں۔
پورا اٹھایا۔فطرت انسانی ہے جب کوئی شخص کسی کے لیے جدوجہد کرتا ہے تو کامیابی کے بعد اس شخص سے بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں جو عمران خان پورا کرنے میں ناکام رہے اگر وہ جہانگیر ترین کو شوگر مقدمات میں کسی قسم کی رو رعایت دیتے تو انہیں یہی رعایت شریف خاندان کے لوگوںکو بھی دینا پڑتی۔ بلوچستان کی باپ پارٹی کا وجودتو گذشتہ انتخابات کے دوران عمل میں آیا ہے۔ان کے ساتھ دو وزارتوں کا وعدہ کرنے کے باوجود وہ ایک وزارت سے محروم رہی۔ تحریک انصاف کو اپوزیشن کے گرینڈ الائنس میں شامل ہونے والے ان ارکان نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا جو دوسری جماعتوں سے آکرتحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ عدم اعتماد کی تحریک سیاسی جماعتوں کے لیے بڑا سبق ہے۔ دراصل تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے ملک پر برسوں سے حکمرانی کرنے والی دو جماعتوں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کو بڑا دھچکا لگا ۔شاید عمران خان کی حکومت کو کسی طرح برداشت کر ہی لیتے لیکن شریف خاندان اور آصف علی زرداری کے خلاف نیب مقدمات اور مولانا فضل الرحمان کی انتخابات میں شکست تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں گرینڈ الائنس بننے کا سبب بن گیا۔عمران خان نیب مقدمات میں سیاست دانوں کو استثنیٰ دے دیتے تو اس بات کی قوی امید تھی کہ وہ اقتدار میں رہتے۔حکومت کے خلاف سفارتی خط کے معاملے میں اگر امریکی عہدے دار نے عدم اعتماد والی بات کر دی تو وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی خبریں عرصہ دراز سے چل رہیں تھیں البتہ یہ بات باعث حیرت ضرور ہے کہ امریکی عہدے دار کا یہ کہنا اگر عمران خان اقتدار میں رہے تو پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے اور اگر انہیں ہٹا دیا جائے تو پاکستان کو معاف کیا جا سکتا ہے ۔