Column

  جمہوری نظام ہی بہترین طرزِ حکومت ہے …. ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

سپریم کورٹ کے نظریہ ضرورت کو دفن کرتے ہوئے ملک میں جمہوریت کی بحالی کے حکم کو دنیا بھر میںستائشی نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔ جمہوری طرز حکومت، حکومت کی ایک ایسی شکل ہے جس میں لوگ یا لوگوں کا منتخب شدہ نمائندہ حکومت چلانے کا اہل ہوتا ہے۔ اس طرز حکومت میں سربراہ حکومت منتخب کیا جاتا ہے، اس کو بادشاہت عطا نہیں ہوتی۔ یہ اصطلاح جمہوریہ انگریزی اصطلاح Republic  کا ترجمہ ہے جو لاطینی زبان کی اصطلاح res publica سے اخذ ہوا اور اس کا مطلب عوامی معاملہ کے ہیں۔ جمہوریہ کی سب سے عام تعریف یہ ہے کہ کسی ریاست میں ایسی حکومت جس کا سربراہ حکومت کوئی بادشاہ نہیں بلکہ منتخب شدہ عوامی نمائندہ ہو۔ دنیا کی مشہور جمہوریہ جیسے امریکہ اورفرانس میں سربراہ حکومت کو نہ صرف آئین کے تحت بلکہ عوامی رائے عامہ کے بعد ہی منتخب کیا جاتا ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں جیمز میڈسن نے جمہوریہ کی تعریف ’’نمائندہ جمہوریت‘‘ کے تحت کی ہے جو ’’راست جمہوریت‘‘ کا تضاد مانا جاتا ہے  اور امریکہ میں اب بھی اپنے آپ کو جمہوریت پسند کہلوانے والے اس تعریف اور امریکہ میں جمہوریت بارے یہی نظریہ اپناتے ہیں۔ عام طور پر جمہوریہ میں طرز حکومت مختلف ہو سکتا ہے۔ سیاسی ماہرین متفق ہیں کہ جمہوریت میں یا تو تمام عوام کی حکومت ہوتی ہے یا پھر عوام کی بڑی آبادی کی جانب سے اکثریت والی سیاسی جماعت یا افراد حکومت چلانے کے فرائض دینے کے اہل ہوتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں حکومت عوام یا جمہور کی رہتی ہے اور اس لیے دونوں طرز حکومتوں کو جمہوریہ میں شامل کیا جاتا ہے۔ جدید سیاسیات میں جمہوریت اس مخصوص نظریے کا نام ہے جو مجموعی عوامی رائے عامہ پر پروان چڑھتا ہے اور اس کو دوسرے عوامی نظریات جیسے آزاد خیالی یا روشن خیالی سے منفرد سمجھا جاتا ہے۔
عمومی طور پر جمہوریہ ایک خودمختار ریاست کا دوسرا نام ہے، لیکن خود مختار ریاست میں ذیلی انتظامی و سیاسی اکائیاں وجود رکھتی ہیں جو جمہوریہ کے ماتحت رہتی ہیں یا کئی مواقع پر ان انتظامی و سیاسی اکائیوں کو بھی ضرورت کے مطابق آزاد یا پھر وفاقی جمہوریت کے طرز پر ڈھال دیا جاتا ہے۔کئی سیاسی ماہرین نے فلاح کو کسی بھی ریاست میں بنیادی جمہوری نکتہ گردانا ہے، یعنی کہ سب سے قابل قبول اور عمل جمہوریہ وہ گردانی جائے گی جس کی بنیاد عوامی فلاح اور بہبود پر رکھی گئی ہو۔ اور ابھی تک دنیا میں سب سے کامیاب نظام حکومت جمہوری طرز حکومت ہی ہے ۔ اگر کوئی سربراہ مملکت اچھی کارکردگی نہیں دکھاتا عوام کی فلاح کے لیے کام نہیں کرتا اور عوام اس سے پریشان ہو جاتی ہے تو اس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جاتی ہے جو جمہوریت کا ہی خاصہ ہے۔
تحریک عدم اعتماد سے مراد وہ ووٹ یا وہ بیان ہے جو کسی سرکاری یا تنظیمی عہدیدار کے خلاف دیا جاتا ہے کہ یہ عہدیدار مزید اس عہدے کو سنبھالنے کے لائق نہیں ۔ سرکاری طور پر اکثر تحریک عدم اعتماد یا عدم اعتماد بل اس وقت پارلیمان میں لایا جاتا ہے جب کوئی حکومتی عہدیدار کوئی ایسا قدم اٹھاتا ہے جو آئین و قانون کیخلاف ہو یا ایسا اقدام جس سے ملک کی بدنامی اور نقصان ہو۔ پارلیمان میں اکثر عدم اعتماد کا بل حزب اختلاف کے جانب سے پیش کیا جاتا ہے جس پر ارکانِ پارلیمان اپنا ووٹ دیتے ہیں۔ اگر کسی وفاقی عہدیدار (جیسے وزیر اعظم،وفاقی وزیر،وغیرہ) کو برطرف کرنا ہوتا ہے تو وفاقی قانون ساز ایوانوں (مثلاً قومی اسمبلی اور سینیٹ) میں بل پیش کیا جاتا ہے اور اگر صوبائی سطح پر کسی عہدیدار (جیسے وزیراعلیٰ،صوبائی وزیر،وغیرہ) کو ہٹانا ہے تو صوبائی قانون ساز ایوانوں میں (صوبائی اسمبلی) میں بل پیش کیا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ سے قوم اسمبلی کی بحالی اور ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دینے اور حکم کے بعد پاکستان کے 22ویں وزیراعظم عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانے کے لیے ان کے خلاف دوبارہ تحریک عدم اعتماد ہونے جارہی ہے۔ سر دست ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں آج تک دو وزرائے اعظم نے تحریک عدم اعتماد کا سامنا کیا، جن میں ایک پہلی مسلم خاتون وزیراعظم کا اعزاز حاصل کرنے والی شہید بینظیر بھٹو جبکہ دوسرے وزیراعظم شوکت عزیز تھے۔ ان دونوں وزرائے اعظم نے تحریک عدم اعتماد کا سامنا کیا اگرچہ وہ دونوں طوفانوں کا مقابلہ کر کے کافی آسانی کے ساتھ غالب آنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔یکم نومبر1989کو بینظیر بھٹو شہید کے خلاف تحریک عدم اعتماد صرف 12 ووٹوں کے فرق سے ناکام ہوئی تھی، جبکہ اگست 2006 میں شوکت عزیز کے خلاف ایک ایسا ہی اقدام بھی کمزور ثابت ہوا تھا۔اس وقت 236 رکنی قومی اسمبلی کے قواعد کے تحت صرف عدم اعتماد کے حامیوں کو ووٹ دینے کی ضرورت ہوتی تھی، حکومت کو بے دخل کرنے کے لیے درکار 119 ووٹوں میں سے تحریک عدم اعتماد کے حق میں 107 ووٹ پڑے تھے۔پاکستان کی نسبت بھارت میں عدم اعتماد کی تحریکیں لوک سبھا میں بہت زیادہ تعداد میں پیش اور کامیابی ہوئی ہیں۔ بھارت میں تین وزرائے اعظم کو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی بدولت اپنے عہدوں سے مستعفی ہونا پڑا تھا ان بھارتی وزرائے اعظم میں وی پی سنگھ، دیوگوڑا اور اٹل بہاری واجپائی شامل ہیں۔ واجپائی کے خلاف تحریک عدم اعتماد صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی۔ انہیں لوک سبھا میں 270 ارکان کی حمایت کی ضرورت تھی لیکن انہیں 269 ارکان کی حمایت حاصل تھی ،بھارت میں اب تک عدم اعتماد کی 27 تحریکیں آچکی ہیں جن میں 15 صرف وزیراعظم اندراگاندھی کے خلاف تھیں۔اندراگاندھی کے بعد لعل بہادر شاستری اور نرسیما رائو کے خلاف تین تین، مرارجی ڈیسائی کے خلاف 2،جواہر لعل نہرو،راجیو گاندھی اور نریندر مودی کے خلاف ایک ایک تحریک عدم اعتماد آچکی ہے۔
انگلستان میں پہلی تحریک عدم اعتماد وزیراعظم لارڈ نارتھ کے خلاف مارچ 1782 میں پیش ہوئی کیوں کہ امریکی جنگ آزادی میں شکست کی بناپر برطانوی ارکان پارلیمنٹ اپنے وزیراعظم سے ناراض تھے اور یہی ناراضی اس تحریک اعتماد کا باعث بنی ۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی پر وزیراعظم لارڈ نارتھ نے انگلستان کے بادشاہ جارج سویم سے اپنا استعفیٰ منظور کرنے کی درخواست کی جو اس نے منظور کرلی اور وہ اپنے عہدے سے فارغ ہوگئے ۔ پاکستان میں اس بار معاملہ اس لیے مختلف ہے کہ ایک تو تمام سیاسی جماعتیں موجودہ حکومت کے خلاف ہیں اور دوسری بنیادی وجہ بیڈ گورنس مہنگائی اور خارجہ داخلہ پالیسی کی ناکامی نے عوام کے اندر حکومت کے خلاف انتہائی غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس لیے کہا یہ جارہا ہے کہ خان صاحب کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو گی، اس سے بچنے کا ایک ہی حل تھا کہ خان استعفیٰ دے کر باعزت راستہ اپناتے ہوئے گھر چلے جاتے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button