تازہ ترینتحریکخبریں

تحریکِ عدم اعتماد: قومی اسمبلی کا اجلاس

وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ کے لیے منعقدہ قومی اسمبلی کا اجلاس اب نمازِ عشاء کے لیے ملتوی کردیا گیا ہے۔ اجلاس ساڑھے 9 بجے شروع ہوگا۔  

صبح ساڑھے 10 بجے شروع ہونے والے اس اجلاس میں اب تک تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہوسکی ہے۔

جب عشاء کی نماز کے لیے اجلاس کو ملتوی کیا گیا اس وقت وزیر توانائی حماد اظہر تقریر کر رہے تھے۔

اس سے قبل دوبارہ شروع ہونے والے پر قومی اسمبلی کے پینل آف چیئر امجد نیازی نے کہا کہ ہم اس آئین کے لیے کھڑے ہوں جو ہمیں خود مختار بنائے۔

قومی اسمبلی کے پینل آف چیئر امجد نیازی اجلاس کی صدارات کررہے ہیں۔

آج صبح قومی اسمبلی کے اجلاس کا آغاز تلاوتِ قرآن مجید و ترجمے سے کیا گیا، جس کے بعد نعتِ رسول ﷺ اور قومی ترانہ پڑھا گیا۔

اجلاس کی ابتداء میں رکنِ قومی اسمبلی ڈاکٹر شازیہ کی والدہ کے انتقال پر فاتحہ خوانی کی گئی۔

تحریکِ عدم اعتماد کی قرار داد قومی اسمبلی کے آج کے 6 نکاتی ایجنڈے کے اجلاس میں چوتھے نمبر پر ہے۔

فاتحہ خوانی کے بعد اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ دیا، اس حکم کے تابع اسپیکر کارروائی چلائیں۔

انہوں نے کہا کہ ایوان آئینی و قانونی طریقے سے سلیکٹڈ کو آج شکستِ فاش دینے جا رہا ہے، عدالتی حکم کی خلاف ورزی نہیں ہونے دیں گے۔

شہباز شریف کے اظہارِ خیال کے دوران حکومتی ارکان نے شور شرابہ کیا۔

اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ جو عدالت کا فیصلہ ہے اس پر من و عن عمل کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق ایوان چلائیں گا، عدالتی حکم پر اس کی روح کے مطابق عمل ہو گا۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ حکومت ہٹانے سے متعلق غیرملکی سازش پر بھی بحث ہو گی۔

اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی جانب سے بین الاقوامی سازش کے ذکر پر بھی شور شرابہ ہوا۔

اسپیکر نے شاہ محمود قریشی کو شہباز شریف کی بات کا جواب دینے کی ہدایت کی۔

جس کے بعد شاہ محمود قریشی نے ایوان میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ قائدِ حزبِ اختلاف نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا، تسلیم کرتا ہوں کہ عدم اعتماد کی آئین میں گنجائش موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ تحریک کو پیش کرنا اپوزیشن کا حق ہے، اس کا دفاع کرنا میرا فرض ہے، ہم آئینی جمہوری انداز سے عدم اعتماد کی تحریک کا دفاع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 12 اکتوبر کو ایک آئین شکنی ہوئی، عدلیہ کے سامنے کیس گیا تو ناصرف وضاحت تلاش کی گئی، بلکہ آئین میں ترمیم کی اجازت بھی دی گئی، مولانا فضل الرحمٰن نے بیان دیا کہ نظریۂ ضرورت کا فیصلہ قبول نہیں کریں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ آج ہم سب نظریۂ ضرورت کا سہارا لینے کے لیے تیار نہیں، وزیرِ اعظم کہتے ہیں کہ مایوس ہوں لیکن اعلیٰ عدلیہ کا احترام کروں گا، عدلیہ نے کہا کہ ساڑھے 10 بجے اجلاس بلایا جائے گا، عدلیہ نے کہا کہ اجلاس جاری رہے گا اور ملتوی نہیں ہو گا جب تک عمل مکمل نہیں ہو جاتا۔

اس موقع پر اپوزیشن ارکان نے ’’ووٹنگ کراؤ، ووٹنگ کراؤ‘‘ کے نعرے لگائے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عدلیہ کے فیصلے کی نظر میں آج 3 اپریل ہے، اتوار کو دفاتر کھولے گئے، اجلاس منعقد ہوا، کارروائی کا آغاز ہوا، عدالت نے فیصلے میں متفقہ طور پر رولنگ کو مسترد کیا،اپوزیشن 4 سال سے نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اس بحران سے نکلنے کے لیے عوام کے پاس چلتے ہیں، عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم کر لیا، عدلیہ کے پاس ہمارے دوست کیوں گئے، از خود نوٹس کیوں لیا گیا، اس کا ایک پس منظر ہے۔

شاہ محمود قریشی نے یہ بھی کہا کہ قاسم سوری نے آئینی عمل سے انکار نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ ایک نئی صورتِ حال آئی ہے، بیرونی سازش کی بات ہو رہی ہے اس لیے اجلاس کا غیر معینہ مدت تک ملتوی ہونا ضروری ہے، نیشل سیکیورٹی کا اعلیٰ ترین فورم ہے۔

شاہ محمود قریشی کے خطاب کے بعد اسپیکر اسد قیصر نے ساڑھے 12 بجے تک قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا۔

اجلاس ملتوی کیے جانے پر اپوزیشن ارکان شہباز شریف کی سربراہی میں اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے جنہوں نے اسپیکر سے تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کا مطالبہ کیا، حکومتی ارکان بھی اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے۔

 

 

قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت کے 51 ارکان موجود ہیں۔

اجلاس سے قبل اپوزیشن ارکان اسپیکر قومی اسمبلی کے چیمبر پہنچ گئے جہاں انہوں نے اسپیکر اسد قیصر سے ملاقات کی۔

اسپیکر سے مذاکرات کے لیےآنے والے اپوزیشن ارکان کے وفد میں مولانا اسعد محمود، سعد رفیق، ایازصادق، رانا ثناء اللّٰہ، محسن داوڑ، سینیٹر اعظم نذیر تارڑ ، نوید قمر اور دیگر شامل ہیں۔

اپوزیشن ارکان نے ملاقات کے دوران اسپیکر اسد قیصر سے سپریم کورٹ کے آرڈر اور اسمبلی کے قواعد پر بات کی۔

اپوزیشن کے وفد نے واضح کیا کہ عدالتی حکم اور اسمبلی قواعد کی رو سے کوئی ایجنڈا لیا نہیں جا سکتا، تحریکِ عدم اعتماد پارلیمانی، جمہوری اور آئینی اقدام ہے۔

اپوزیشن وفد نے یہ بھی کہا کہ تحریکِ عدم اعتماد سے روگردانی کر کے بچا نہیں جا سکتا، کوئی اور چیز زیرِ بحث لائی گئی تو یہ توہینِ عدالت اور آئین کے منافی ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button