Editorial

عدم برداشت کی سیاست کا خاتمہ ہونا چاہیے

سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے مطابق تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس آج صبح ساڑھے 10 بجے ہو گا۔ اجلاس کا 6 نکاتی ایجنڈا جاری کر دیا گیا ہے، جس میں تحریکِ عدم اعتماد کی قرار داد چوتھے نمبر پر ہے۔سپریم کورٹ کے قومی اسمبلی کے اجلاس کی طلبی کے فیصلے کی مصدقہ کاپی قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کو موصول ہو چکی ہے۔ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ سے متعلق سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کی سماعت کے بعد ایک روز قبل سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی اور تمام وزراء کو اپنے عہدوں پر بحال کیا اور ڈپٹی سپیکر کی تین اپریل کی رولنگ آئین کے خلاف قرار دے کر کالعدم کر دی ۔ وزیرِ اعظم عمران خان کی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھی مسترد کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ وزیرِ اعظم آئین کے پابند تھے، وہ صدر کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس نہیں کرسکتے تھے۔ سپیکر کا فرض ہے کہ اجلاس بلائے۔
تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دوران کسی رکنِ قومی اسمبلی کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکا نہیں جائے، تحریکِ عدم اعتماد کا عمل مکمل ہونے تک اجلاس موخر نہیں کیا جا سکتا۔اِدھر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے سپیکرقومی اسمبلی اسد قیصر نے اپنا تین اپریل کا حکم نامہ واپس لے لیاہے جس میں رولنگ دینے کے بعد اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کیا گیا تھا۔ قومی اسمبلی کے آج کے اجلاس کا ایجنڈا ہم نے بیان کردیا ہے جس میں سب سے اہم وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری ہے ۔
سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے بعد گزشتہ روز ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری کے خلاف بھی حزب اختلاف نے تحریک عدم اعتماد جمع کرادی ہے جس کے متن میں کہاگیا ہے کہ قاسم خان سوری نے ایوان چلاتے ہوئے بدترین مثال قائم کی ہے، انہیں ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کے عہدے سے ہٹایا جائے یہی نہیں بلکہ حزب اختلاف نے خیبرپختونخوا کے وزیرا علیٰ محمود خان کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع کرادی ہے یوں وزیراعظم عمران خان، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار،سپیکر صوبائی اسمبلی چودھری پرویز الٰہی، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کے خلاف بھی متحدہ حزب اختلاف نے تحریک عدم اعتماد جمع کرادی ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے حزب اختلاف کا بھرپور مقابلہ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے اور یقیناً آج قومی اسمبلی کی کارروائی سے سارا منظر نامہ واضح ہوجائے گا کہ حزب اقتدار کون ہوگا اور حزب اختلاف کون ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کو کالعدم قرار دے کر ایک اہم معاملے کو آئین کے مطابق نمٹادیا ہے اور اب بال ایک بار پھر سیاسی قیادت کے کورٹ میں چلی گئی ہے کہ وہ ملکی سیاست کو کیسے آگے لے کر بڑھتے ہیں۔ وطن عزیز کو درپیش داخلی اور خارجی چیلنجز اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ عمران خان اور اُن کی ٹیم نے اِن چیلنجز کا مقابلہ کیسا کیا یہ یقیناً اُسی وقت سامنے آئے گا جب نئی ٹیم میدان میں اُترے گی۔ ہم تو ہمیشہ سے ہی یہی درخواست کرتے آئے ہیں کہ سیاسی قیادت کو تمام تر سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے وطن عزیز کے داخلی و خارجی مسائل کے فوری اور دیرپا حل کے لیے مل بیٹھنا چاہیے کیوں کہ آج ہماری سیاسی قیادت برملا اعتراف کرتی ہے کہ عوام مہنگائی اور غربت کی چکی میں پس رہے
ہیں انہیں ریلیف دے کر اِن کا معیار زندگی بہتر کرنے کی ضرورت ہے یہی موقف پی ٹی آئی کا رہا ہے اور یہی حزب اختلاف کہتی آئی ہے لیکن کیا ہی اچھاہوتا گر اِن مسائل پر قومی قیادت ایک پیج پر نظر آتی جیسا کہ ماضی میں قومی سلامتی کے اہم فیصلوں پر ایک پیج پر دیکھی گئی ہے۔
ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر اگرچہ پی ٹی آئی کے بعض رہنما ناخوش نظر آتے ہیں لیکن ہمارا موقف ہے کہ نوبت اِس نہج پر جانی ہی نہیں چاہیے تھی کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کو خود اِس معاملے میں مداخلت کرنا پڑتی۔ قیادت سیاسی درجہ حرارت اعتدال میں رکھتی ، ایک دوسرے کی سنتے اور مانتے اور آئین کے مطابق متفقہ راستہ نکال لیتے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوپایا اور یہ بدقسمتی صرف اِسی مسئلے پر ہی نہیں سامنے نہیں آئی بلکہ ہر اُس معاملے پر دیکھی گئی ہے جس پر قومی قیادت کے متحد اور متفق ہونے کی ضرورت تھی۔ وطن عزیز میں کوئی سیاسی جماعت نئی نہیں بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے تو جمہوریت کے لیے جانیں قربان کی ہیں اسی طرح مسلم لیگ نون نے بھی ہر ممکن حد ترقی اور خوشحالی کے سفر کو آگے بڑھایا ہے،
پاکستان تحریک انصاف کی قیادت بھی درجنوں بلکہ ان گنت کاموں کا کریڈٹ لیتی ہے، یوں سبھی جماعتیں کسی نہ کسی طرح عوامی عدالت سے سرخرو ہونے کے لیے ہر ممکن حد تک کام کرتی آئی ہیں۔ جس طرح شہید محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں محمد نوازشریف کے درمیان میثاق جمہوریت ہوا ہم نے کئی مواقعوں پر ایسے ہی ایک نئے میثاق جمہوریت کی خواہش ظاہر کی تاکہ اُس کے نتیجے میں سیاسی ماحول میں شائستگی اور برداشت نظر آئے یقیناً ایسا ہوتا تو پاکستان تحریک انصاف کو بھی پانچ سال پورے کرنے کا موقعہ ملتا جس طرح مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی اپنی آئینی مدت پانچ سال پوری کی اور پھر عوام کو بھی اس میثاق کے نتیجے میں یہ اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ اُن کے مسائل حل کرنے کے لیے سیاسی قیادت ایک پیج پر ہے اور ہر ممکن کوشش بروئے کار لارہی ہے ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ وطن عزیز کو آج جتنے داخلی اور خارجی مسائل درپیش ہیں اُن کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری سیاسی قیادت کو متحد و متفق ہونا پڑے گا کیوں کہ ہر مسئلہ انتہائی گمبھیر اور فوری توجہ کا متقاضی ہے اور ہمارے نزدیک کوئی ایک سیاسی جماعت قیادت کرتے ہوئے اُن سے بھرپور طریقے سے نہیں نمٹ سکتی اِس کے لیے متفقہ فیصلوں اور اجتماعی کاوشوں کی ضرورت رہے گی اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہماری قیادت وطن عزیز اور عوام کی خاطر اپنے تمام تر اختلافات کو ایک طرف رکھ کر مل بیٹھے۔ کیوں کہ ماضی میں مخالفت برائے مخالفت اور انتقامی سیاست کے نتیجے میں قومی سیاست اور سیاست دانوں کو حقیقی معنوں میں بہت نقصان پہنچا اور کئی دفعہ تو جمہوریت کی قربانی بھی دینا پڑی اسی لیے ملک کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں نے میثاق جمہوریت کرکے ایک نئی روایت قائم کی تبھی ملکی تاریخ میں پہلی بار دونوں جماعتوں کی حکومتیں اپنی اپنی آئینی مدت پوری کرسکیں لیکن افسوس آج تک کوئی بھی منتخب وزیراعظم اپنی آئینی مدت پانچ سال پوری نہیں کرسکا۔
سیاسی قیادت کو ماضی کی قربانیوں اور حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے نکات پر متفق ہونا چاہیے جن کے نتیجے میں نہ صرف جمہوریت کی بقا یقینی ہو بلکہ جمہوری عمل کے ثمرات بھی عوام تک بخوبی پہنچ سکیں کیوں کہ جب ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو عام پاکستانی یہی سوال اٹھاتے حق بجانب نظر آتے ہیں کہ
جمہوریت کے ثمرات اُن کے کیا پہنچے؟ لہٰذا سیاسی قیادت کی جانب سے ایسے فیصلوں اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے جن کے نتیجے میں جمہوری عمل عوام کی اشد ضرورت محسوس ہو اور وہ سمجھیں کہ جمہوری عمل ہوا تو ہی ان کا سفرِ زیست آسان ہوگا، انہیں روزگار اور ترقی میسر آئے گی اور اُن کے مسائل کا بتدریج خاتمہ ہوگا۔ سیاسی قیادت کے لیے یہ بڑا سبق ہونا چاہیے کہ عوام اب سیاسی اجتماعات سے دور رہتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button