Editorial

سپریم کورٹ کا تاریخ ساز فیصلہ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی 3 اپریل کی رولنگ اور قومی اسمبلی کو تحلیل کرنا آئین سے متصادم قراردیتے ہوئے قومی اسمبلی بحال کردی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے اس اہم ترین کیس کی سماعت کی جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی شامل تھے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کا اجلاس 9 اپریل کو بلائیں۔ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہفتے کو صبح 10 بجے کرائی جائے، صدر کے نگران حکومت کے احکامات کالعدم قرار دیے جاتے ہیں، تحریک عدم اعتماد منظور ہو جاتی ہے تو اسمبلی نئے وزیر اعظم کا انتخاب کرے۔
سپریم کورٹ نے فیصلہ سنانے سے قبل چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو سپریم کورٹ میں طلب کیا اور الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے استفسار کیا جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ہمیں 90 روز میں الیکشن کرانے کے لیے تیار رہنا چاہیے، الیکشن کمیشن ہر وقت تیار ہے الیکشن کرانے کے لیے لیکن ہمیں حد بندی کرنی ہیں لہٰذا ہمیں 6 سے 7 ماہ چاہئیں۔سپریم کورٹ میں دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ تحریک عدم اعتماد کے دوران اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جاسکتیں، ایساکرنا آئین کے منافی ہے، اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو ممکن تھا اپوزیشن کچھ کرلیتی، اصل مسئلہ اسمبلی تحلیل ہونے سے پیدا ہوا، 172اراکین کی ضرورت تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لیے نہیں، ووٹنگ کی لیے ہوتی ہے، اسپیکر کی رولنگ نے اسمبلی توڑنے کا راستہ ہموار کیا، دیکھنا ہے یہ کوئی آئین کے مینڈیٹ کو شکست دینے کا گریٹر ڈیزائن تو نہیں؟ اگرکوئی بھی ناکام ہورہا ہو تو ایسے رولنگ لاکر نئے الیکشن کرالے، انتخابات پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔
اگرچہ وزیراعظم عمران خان فیصلہ آنے سے قبل واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ عدالت کا جو بھی فیصلہ آیا قبول کریں گے لہٰذا توقع کی جاسکتی ہے کہ سیاسی قیادت سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے جمہوری روایات کو آگے بڑھائے گی اور ایسا ماحول پیداکرنے سے گریز کیا جائے گا جو تصادم کی طرف جائے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی قیادت نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے لیکن اِس وقت پوری سیاسی قیادت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جمہوری عمل کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے اچھی روایات قائم کریں اور کسی بھی صورت تصادم یا کشیدگی کا ماحول پیدا نہ ہونے دیں، رویوں میں شائستگی لائیں اور بہرصورت اشتعال انگیزی سے بچیں۔ ہم ایک بار پھر بتادیتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف 3 اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی لیکن 3اپریل کو ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرتے ہوئے اجلاس ملتوی کردیا اور کچھ دیر بعد وزیراعظم نے قوم سے خطاب کیا اور کہا صدر سے اسمبلی تحلیل کرنے کا کہہ دیا ہے اس کے تھوڑی ہی دیر میں صدر مملکت نے اسمبلی تحلیل کردی۔ اس صورتحال کا سپریم کورٹ نے3 اپریل کو ہی ازخود نوٹس لیا اور سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے 5 روز تک اس اہم کیس پر سماعت کی جس کے بعد سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ صادر کیا۔ اگرچہ دوران سماعت کئی حکومتی شخصیات نے کہا کہ عدالت میں سپیکر
کی رولنگ چیلنج نہیں ہوسکتی لیکن سپریم کورٹ نے تمام تر صورتحال اور آئین و قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے جو فیصلہ جاری کیا ہے اِس سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئین سے متصادم تھی اسی لیے اِس کے بعد ہونے والے تمام تر اقدامات آئین سے متصادم قرار دے دیئے گئے ہیں لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی قیادت کو اِس ساری مشق کے دوران اپنی غلطیوں اور رویوں کی تلخی پر ضرور غور کرنا چاہیے،
پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے لیکن نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا پڑا پس ظاہر ہوا کہ سیاست دان سیاسی معاملات ایوان میں بیٹھ کر آئینی طریقے سے حل کرنے میں ناکام ثابت ہوئے اور سپریم کورٹ کو مداخلت کرکے صورت حال کو قابو میں کرنا پڑا۔ عدالتی فیصلے کے بعد پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد کا نتیجہ جو بھی ہو اس سے قطع نظر سیاسی قیادت کو دیکھنا چاہیے کہ کیا ہمارا سیاسی طرز عمل اور رویہ جمہوری ہے اور کیا ہم عدم برداشت کی آخری سیڑھی پر جاکھڑے نہیں ہوتے؟ ہم کیوں ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام نہیں کرتے اور اُس کو اپنی آئینی مدت پوری نہیں کردیتے؟ کیا نئی منتخب حکومت کے پہلے روز سے ہی اِس کے خلاف ملک گیر تحاریک کا آغاز کردینا اور اِس کو ہٹانے کے لیے ہر آئینی اور غیر آئینی حربہ اپنانا جمہوریت کا حُسن ہے؟
حالیہ تحریک عدم اعتماد میں ایک چیز تو بڑی واضح طور پر سامنے آئی کہ جہاں حزب اختلاف نے حکومتی اتحادی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملایا وہیں حکومتی ٹیم کے بعض کھلاڑی یعنی اراکین اسمبلی بھی حزب اختلاف کے ساتھ جاملے جس کو حکمران جماعت نے فلور کراسنگ کا نام دیا اور اِن اراکین کی خریدوفروخت کے الزامات عائد کیے جو اگرچہ ثابت نہیں ہوسکے لیکن جب عدالتی حکم پر ایوان میں کارروائی کا آغاز ہو تو سبھی سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر اِس معاملے پر کسی نتیجے پر پہنچنا چاہیے وگرنہ یہ روایت آئندہ آنے والی ہر حکومت کے لیے خطرناک ثابت ہوگی اور کسی بھی وقت حزب اختلاف ایسی صورت حال پیدا کرکے اکثریت کو اقلیت میں بدل سکتی ہے۔ سپریم کورٹ میں اِس حوالے سے صدارتی ریفرنس زیرسماعت ہے اور اِس حوالے سے بھی یقیناً جلد صورت حال واضح ہوجائے گی لیکن سیاسی قیادت کو اپنے ذمے کے کام خود بھی کرنے چاہئیں کیوں کہ ہماری ملکی سیاست میں فلور کراسنگ کیسے کی جاتی ہے اوراِس کے پیچھے کیا کیا محرکات ہوتے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔
سپریم کورٹ نے حالیہ کیس کی سماعت کے دوران ملک کی اقتصادی حالت پر بھی کئی بار روشنی ڈالی جس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سیاسی قیادت کے علاوہ بھی سبھی کو ملکی حالات بالخصوص معیشت کے مسائل کے حوالے سے فکر لاحق ہے کیوں کہ جب ملک میں سیاسی استحکام ہوگا تو معاشی مسائل بھی بتدریج کم سے کم ہوکر ختم ہوجائیں گے۔ متحدہ حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ وہ انتخابات سے قبل اصلاحات لانا چاہتی ہے تاکہ دھاندلی کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے تو بلاشبہ اِس پر کسی ہم وطن کو اعتراض نہیں کہ انتخابات میں دھاندلی نہیں ہونی چاہیے لیکن سیاسی قیادت کو اصلاحات کے ساتھ ساتھ اپنے رویوں پر نظرثانی کرنی چاہیے کیوں کہ پی ٹی آئی نے اپنے دور حکومت میں انتخابی اصلاحات کے حوالے سے جتنی بھی کاوشیں کیں حزب اختلاف کی طرف سے انہیں یکسر نظر انداز کیاگیا اور کسی بھی موقعے پر حزب اختلاف مشاورت کے عمل میں شامل نہیں ہوئی۔
حزب اختلاف کی طرف سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی مخالفت کی جاتی رہی ہے اور عین ممکن ہے کہ حزب اختلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ختم کردے لیکن ایسا ہونے پر پی ٹی آئی مزاحمت کرے گی کیوں کہ پہلے ہی پی ٹی آئی اِس معاملے پر حزب اختلاف پر الزامات لگاتی آرہی ہے۔ اگر حزب اختلاف انتخابی عمل میں متذکرہ تبدیلیاں لاتی ہے تو قوی امکان ہے کہ پی ٹی آئی اِن کی مخالفت کرکے اِسے چیلنج کردے اور یوں مخالفت برائے مخالفت کی کبھی ختم نہ ہونے والی سیاست جاری رہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button