Column

رودادِ سیا ست اور قبل ازوقت انتخابات ۔۔۔۔۔ امتیاز عاصی

معروف صحافی اور سنیئر کالم نگار نواز رضا حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی کتاب رودادِ سیاست کے صفحہ نمبر 248 پر رقم طراز ہیں کہ جب وزیراعظم عمران خان نے قبل از وقت انتخابات کی بات کی تو مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف کا اس بارے ردعمل دیگر رہنمائوں سے قدرے مختلف تھا۔انہوں نے وزیراعظم کے قبل از وقت انتخابات بارے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہاتھاکہ عوام قبل از وقت انتخابات کے اعلان سے خوش ہیںاور مسلم لیگ نون قبل از وقت انتخابات کے لیے تیار ہے۔تعجب تو اس پر ہے جب وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی تحلیل کردی تاکہ سیاسی جماعتیں عوام میںجا کر نئے انتخابات کی تیاری کریں تو متحدہ اپوزیشن کے قائد اور مسلم لیگ نون کے صدر میاںشہبازشریف نے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔ ملک کی بڑی جماعت کے دعویٰ داروں کی سیاست میں کتنا تضاد ہے۔ایک طرف مسلم لیگ نون کے قائد نئے انتخابات کے لیے تیار ہیں تو پارٹی کے صدر عوام میں جانے کی بجائے عدالت عظمیٰ میں چلے گئے۔متحدہ اپوزیشن نے تحریک انصا ف کی رہ جانے والی مدت کے لیے میاں شہباز شریف کو وزیراعظم کے منصب کے لیے نامز د کر رکھا ہے شاید اسی لیے وہ نئے انتخابات کے لئے تیار نہیں ۔اب وزیراعظم عمران خان کے سیاسی مستقبل کا دارو مدار عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے مشروط ہے۔حالات و واقعات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی تحریک نے عمران خان کو سیاسی شہید بنا دیا ہے جس کے آئندہ انتخابات پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ملک میں افراتفری کے ماحول کے خاتمے کے لیے ضروری ہے سیاسی جماعتیں فوری طور پر نئے انتخابات کی طرف جائیں۔ جس کے بعد عوام جسے چاہیں اسے اقتدار سونپ دیں۔ ملک میں اگر سیاسی افراتفری کا ماحول رہا تو اس کے معاشی صورت حال پر برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ملک کی بدقسمتی ہے کسی وزیراعظم نے آج تک اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی بلکہ اسے اپنا آئینی عرصہ پورا کئے بغیر کسی نہ کی طریقہ سے چلتا کیا گیا۔سیاست دانوں کو ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ملکی مفادات کے لیے سوچنا چاہیے ملک ہے تو ہم بھی ہیں۔
نواز رضا آگے چل کر لکھتے ہیںکہ میاں نواز شریف نے وزیر اعظم کے قبل ازوقت انتخابات کے بارے میں بیان کا خیر مقدم کرکے دراصل سیاسی بیان دیا اور کپتان کو باور کرایا کہ ان کی جماعت قبل از وقت انتخابات کے لیے تیار ہے۔کتاب کے صفحہ 256 میں وہ لکھتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت کو قائم ہوئے چار ماہ ہی ہوئے تھے ۔چھ ووٹوں کی اکثریت سے وفاق اور آٹھ ووٹوں کی اکثریت پر قائم ہونے والی حکومتوں کو گرانے کی باتیں زدوعام تھیںلیکن حقیقت کچھ اور ہے۔فوری طور پر ان ہائوس تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔ اپوزیشن کی طرف سے بار بار یہ کہا جا رہاہے ہم حکومت گرانے کے لیے کسی محلاتی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اسی پیراگراف میں آگے لکھتے ہیںکہ مولانا فضل الرحمان پچھلے چار ماہ سے اپوزیشن کا گرینڈ الائنس بنانے اور پی ٹی آئی کی حکومت گرانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ان کا موقف ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کا گرینڈ الائنس بنائے بغیر حکومت نہیں گرائی جا سکتی انہوں نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو پیغام بھجوایا ہے۔کالم کی تنگی کے باعث کتاب کے تمام حصوں پر روشنی ڈالنا ممکن نہیں،البتہ ایک بات واضح ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی عمران خان کی حکومت کے خلاف محلاتی سازشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔آصف علی زردری اور نواز شریف جو ایک دوسرے کو دیکھنے کو تیا ر نہیں تھے، وقت نے ثابت کیا سیاست دانوں کے مفادات ایک ہوں تو وہ یکجا ہونے میں دیر نہیں کرتے۔ ملکی سیاست کا المیہ ہے کہ سیاست دان انتخابات میں عوام کو ان کے مسائل کے حل کے لیے سبز دکھاتے ہیں جب منتخب ہوجاتے ہیں تو اپنے انتخابی حلقوں میں جانا پسند نہیں کرتے بلکہ وفاقی دارالحکومت کی پرکشش پارلیمنٹ لاجز میں مستقل ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد میں بہت سی جماعتوں کی شمولیت کے باوجود اپوزیشن کے جلسوں اور جلوسوں میں وہ جوش وخروش دیکھنے میں نہیں آیا جیسا کہ سیاسی جماعتوں کی تحریک میں ہونا چاہیے ۔جناب نواز رضا نے اپنی کتاب کے تینوں والیم میں ملکی سیاست کے ان تمام پہلوئوں پر روشنی ڈالنے کی بھرپور کوشش کی ہے جن سے آج کی نوجوان نسل ناواقف ہے۔انہوں نے جن جن سیاسی ادوار اور مارشل لاء دور کو بہت قریب سے دیکھا ہے ان پر بڑی عرق ریزی کرکے آج کے قاری کو نئی اطلاعات فراہم کی ہیں۔
حاجی نواز رضا اپنے زمانہ طالب عملی میں جب وہ گورنمنٹ کالج اصغرمال کی طلبہ یونین کے جنرل سیکرٹری تھے ، ذوالفقا ر علی بھٹو کی حکومت کے زوال بارے روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب پورا ملک ایوبی آمریت کے خلاف سٹرکوں پر نکلا ہوا تھا ان کی ذوالفقار علی بھٹو سے راولپنڈی کے قدیم فلیش مین ہوٹل میں ملاقات ہوئی ۔گورنمنٹ پولی ٹیکنک کالج پشاور روڈ کے طالب علم عبد الحمید (جس کا تعلق پنڈی گھیب سے تھا) کے خون سے ایوب خان کے خلاف تحریک کو مہمیز ملی۔ذوالفقار علی بھٹو نے سٹوڈنٹس یونین کی تقریب حلف برداری میں آنا تھا کہ نوجوان کی شہادت نے ایوب خان کے خلاف تحریک میں جان پیدا کر دی ۔تقریب حلف برداری ایوب خان کے خلاف تحریک کی نذر ہو گئی ۔جہاں تک ہماری معلومات ہیں وزیر اعظم نواز شریف اور چودھری نثار علی خان کی کابینہ اجلاس میں یہ آخری ملاقات تھی جس میں چودھری نثا رعلی خان نے نواز شریف سے کہا تھا کہ جناب میں 1985 سے آپ کے ساتھ ہوں کوئی میری وفاداری پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ اگر میں وفادار نہیں تو حسن اور حسین بھی وفادار نہیں جس کا ذکر نواز رضا نے رودادِ سیاست میںکرکے نئی اطلاعات فراہم کی ہیں۔ردادِ سیاست دراصل نئی نسل کے سیاست دانوں اور عام لوگوں کے لیے ملکی سیاست کے اتارچڑھائو سے روشناس کرانے کا ایک اچھا ذریعہ ثابت ہو گی۔سیاست دانوں اور نوجوان نسل کو نواز رضا کی کتاب رودادِ سیاست ضرور پڑھنی چاہیے تاکہ انہیں حکومتوں کے بنانے اور گرانے کے دائوپیچ سے آگاہی ہوسکے۔ میری دعا ہے کہ رودادِ سیاست نوجوان نسل کے لیے معلومات کا ایک اچھا ذریعہ ثابت ہو سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button