Editorial

سیاسی اضطرابی صورتحال

 سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس کی سماعت آج صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیس نمٹانے کے لیے صبح سے سماعت شروع کریں گے۔ کوشش کی ہے کہ کیس کی وجہ سے روز مرہ کا کام متاثر نہ ہو اور معاملے کو جلد مکمل کیا جائے۔
بدھ کے روز بھی چیف جسٹس کی سربراہی میں 5رکنی لارجربینچ نے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی ۔ صدر مملکت کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر نے آرٹیکل 184 تھری کے تحت درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھایا اور دلائل دیئے ۔ قبل ازیں جب سماعت کا آغاز ہوا توجسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ عدالت پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ فیصلہ نہیں کر رہی، یک طرفہ فیصلہ کیسے دے سکتے ہیں؟
مرکز کے بعد پنجاب کی صورت حال دیکھیں تو صوبہ پنجاب کا سیاسی بحران بھی شدید تر ہوتا جارہا ہے اور یہاں پہلے تحریک انصاف کی طرف سے اپنے ہی ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی اور پھر حزب اختلاف کے اتحاد نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائیں گے۔
اِس معاملے کا پس منظر یہ ہے کہ نئے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے چھ اپریل یعنی گزشتہ روز دوبارہ اجلاس بلایاگیا کیونکہ پہلا اجلاس ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا تھا لیکن چھ اپریل کو ہی اجلاس کی نئی تاریخ سولہ اپریل کا اعلان کردیاگیا، رات گئے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے سولہ کی بجائے اجلاس چھ اپریل کو ہی بلانے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا
اس معاملے پر پنجاب اسمبلی کے ترجمان کا موقف تھا کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس5 اپریل 2022 کے نوٹیفکیشن کے تحت 16اپریل کو صبح ساڑھے گیارہ بجے ہی منعقد ہوگا۔ ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کے دستخطوں سے 6 اپریل کو شام ساڑھے سات بجے طلب کیے جانے والے اجلاس کے جعلی آرڈر کا اسمبلی سیکرٹریٹ نے بغور جائزہ لیااور اس نتیجے پر پہنچا کہ اس جعلی آرڈر پر کوئی ڈائری نمبر درج نہیں کیا گیا جو کہ ایسی اہم نوعیت کے دستاویزات کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
یہ آرڈر پنجاب اسمبلی کے شعبہ قانون سازی کا ڈرافٹ کردہ بھی نہیں اور ایسی سرکاری دستاویز تیار کرنا شعبہ قانون سازی کی ذمہ داری ہے نیز یہ کہ یہ آرڈر نہ تو اسمبلی سیکرٹریٹ نے تیار کیا اور نہ ہی اسے جاری کیا۔ قواعد انضباط کار پنجاب اسمبلی بابت 1997 کے قاعدہ 28 کے تحت حامل اختیارات کے مطابق سیکرٹری اسمبلی وزیر قانون و پارلیمانی امور کی نشاندہی پر اسمبلی بزنس کو اسمبلی اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کرتا ہے۔
ڈپٹی سپیکر کا جاری کردہ مذکورہ آرڈر اسمبلی قواعد و ضوابط کے خلاف ہے۔ اس صورتحال سے بات واضح ہوتی ہے کہ زیر بحث آرڈر اسمبلی سیکرٹریٹ سے باہر تیار کیا گیااور ایسی صورت حال میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ڈپٹی اسپیکر کو قواعد انضباط کار بابت 1997 کے قاعدہ 25 کے تحت تفویض کردہ اختیارات واپس لیے جائیں،
بعد ازاں اسمبلی سیکرٹریٹ نے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کو اسمبلی کے قاعدہ 25 کے تحت تفویض کردہ اختیارات واپس لینے کا آرڈر بھی جاری کر دیا ۔ یوں بظاہر پنجاب میں بھی حزب اختلاف حکومتی ٹیم میں نقب لگانے میں کامیاب نظر آتی ہے اب یہ گتھی کس طرح سلجھتی ہے کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔ جہاں تک دھمکی آمیز مراسلے کا معاملہ ہے تو روس نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی جانب سے ’شرمناک
مداخلت کی ایک اور مبینہ کوشش‘ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ نے ’نافرمان‘عمران خان کو سزا دینے کی کوشش کی ہے۔
ترجمان روسی وزارت خارجہ ماریا زاخارووا کے مطا بق روس نے نوٹ کیا ہے کہ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم کے مشورے اور اس سے پہلے کے واقعات کے پیش نظر 3 اپریل کو قومی اسمبلی تحلیل کر دی۔رواں سال 23 سے 24 فروری کو عمران خان کے ماسکو کے دورے کے اعلان کے فوراً بعد امریکیوں اور ان کے مغربی ساتھیوں نے وزیر اعظم عمران خان پر غیر مہذبانہ انداز میں دبائو ڈالنا شروع کر دیا تھا اور اس دورے کو منسوخ کرنے کے لیے الٹی میٹم کا مطالبہ کیا۔ جب وہ اس کے باوجود روس آئے تو ڈونلڈ لو نے واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کو فون کیا اور اس دورے کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا جسے مسترد کر دیا گیا۔
روسی عہدیدار نے کہا کہ پارلیمنٹ میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد جس طرح پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی اپوزیشن کے ساتھ مل گئے، اس پیش رفت سے اس حوالے سے کوئی شک کی گنجائش نہیں رہی کہ امریکہ نے ’’نافرمان‘ذ عمران خان کو سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ ایک آزاد ریاست کے اندرونی معاملات میں اپنے ذاتی مقاصد کے لیے شرمناک امریکی مداخلت کی ایک اور کوشش ہے۔
یہاں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بھی ذکر کرتے ہیں جنہوں نے اِس مراسلے پر نجی ٹی وی سے گفتگو میں مریم نواز کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ اسد مجید کی بطور سفیر واشنگٹن میں مدت پوری اور برسلز میں تعیناتی کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ امریکی انڈر سیکرٹری سے ذکر کیا تھا کہ کیا اس طرح کی گفتگو مناسب ہے۔ میں نے انڈر سیکرٹری سے احتجاج کیا تھا یہ ریکارڈ پر ہے۔ وزیراعظم کا اختیار ہے کہ وہ کب اس کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے وزیراعظم اور دیگر حکام سے ذکر کیا۔ سفیر اور میرے آفس کی تجویز تھی کہ ڈی مارش ہونا چاہیے۔ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے سامنے معاملہ پیش کیا۔
نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی ہدایت پر ہم نے ڈی مارش کیا۔ مسلم لیگ نون والے اب اعتراضات کر رہے ہیں وہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں شریک کیوں نہیں ہوئے؟ وزیراعظم کو اسمبلی تحلیل کرنے کا حق حاصل تھا۔ انہوں نے صدر کو ایڈوائس بھیجی اور صدر نے اسمبلی تحلیل کر دی۔ متذکرہ صورت حال سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سارا معاملہ اُسی مراسلے کی بنیاد پر اور اُسی کے گرد گھومتا ہے اگر مراسلے کے معاملے پر صورت حال مکمل طور پر واضح ہوجاتی ہے تو توقع کے ساتھ سیاست دانوں سے درخواست کی جانی چاہیے کہ اب سیاست سے توجہ ہٹاکر عوام پر مرکوز کرلیں کیوں کہ ایک طرف وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے تو دوسری طرف وفاقی حکومت کی تحلیل کے اعلان کے بعد حکومت اور حزب اختلاف میں ڈیڈ لاک ہے اورتازہ ترین خبروں کے مطابق سابق اپوزیشن لیڈر میاں محمد شہبازشریف نے نگران وزیراعظم کے لیے جسٹس ریٹائرڈ گلزار کا نام مسترد کردیا ہے۔
حزب اختلاف مراسلے کے معاملے پر نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیہ پر بھی اب سوالات اٹھارہی ہے حالانکہ قائد حزب اختلاف مدعو کرنے کے باوجود اِس اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ اِدھر پنجاب میں نئے قائد ایوان کے انتخاب کا معاملہ لٹکا ہوا ہے، مقررہ تاریخ پر اجلاس ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا اس کے بعد چھ اپریل کو دوبارہ اجلاس طلب کیاگیا اور پھر پانچ اپریل کو تاریخ آگے بڑھادی گئی لیکن ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے تاریخ کی توسیع کو مسترد کرکے اجلاس چھ اپریل کو ہی بلانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا
اِس صورت حال کو دیکھتے ہوئے اب ان کا نوٹیفکیشن بھی اسمبلی سیکرٹریٹ نے مسترد کردیا ہے اور سپیکر چودھری پرویز الٰہی نے ڈپٹی سپیکر کے اختیارات بھی دوست محمد مزاری سے واپس لے لیے ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے بیک وقت کئی معاملات سامنے آگئے ہیں جو فوراً اور اتفاق رائے سے حل طلب ہیں اگر سیاسی قیادت افہام و تفہیم کے ساتھ سیاسی معاملات نہیں نمٹاتی تو یقیناً سیاسی اعتبار سے یہ افسوسناک صورت حال ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button