Column

ایوان کا تقدس برقرار رکھا جائے …. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان
وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ کے لیے اتوار کوقومی اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس میں ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں کرائی اور اسے غیر آئینی قرار دے کر مسترد کردیا۔ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی زیرصدارت قومی اسمبلی کا یہ اجلاس تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول ﷺ سے شروع ہوا تھا۔ اجلاس مقررہ وقت سے 38 منٹ تاخیر سے شروع ہوا۔ اجلاس شروع ہوتے ہی پی ٹی آئی ارکان نے عمران خان کے حق میں نعرے لگائے۔ تحریک انصاف کے 17 ارکان قومی اسمبلی اپوزیشن لابی میں جاکر بیٹھ گئے۔ ڈپٹی سپیکر نے پہلے وقفہ سوالات شروع کرایا جس میں وزیر قانون فواد چودھری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سات  مارچ 2022 کو ہمارے سفیر کو طلب کیا جاتا ہے اور اس میٹنگ میں ہمارے سفیر کو بتایا جاتا ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جارہی ہے اور پاکستان سے تعلقات کا دارومدار اس عدم اعتماد کی کامیابی پر ہے، ہمیں کہا گیا کہ اگر عدم اعتماد کامیاب نہ ہوئی تو آپ کا اگلا راستہ سخت ہوگا۔ فواد چودھری نے کہا کہ کیا یہ 22 کروڑ لوگوں کی قوم اتنی کمزور ہے کہ باہر کی طاقتیں ہماری حکومتیں بدل دیں، کیا یہ آئین کے آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ کیا پاکستانی عوام کٹھ پتلیاں ہیں اور پاکستانیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے؟ کیا ہم غلام اور اپوزیشن لیڈر کے بقول بھکاری ہیں، اگر ہم غیرت مند قوم ہیں تو یہ تماشا مزید نہیں چل سکتا اور اس پر رولنگ آنی چاہیے، آئین کے آرٹیکل 5 کے مطابق ملک سے وفاداری ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ اس کے بعد ڈپٹی سپیکر نے قائد حزب اختلاف کی جانب سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں کرائی بلکہ انہوں نے کہا کہ وزیر قانون کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات بالکل درست ہیں، عدم اعتماد کی تحریک کا آئین کے مطابق ہونا ضروری ہے، کسی غیر ملکی طاقت کو یہ حق نہیں کہ وہ سازش کے تحت پاکستان کی منتخب حکومت
کو گرائے۔عدم اعتماد کی قرارداد آئین، قومی خود مختاری اور آزادی کے منافی ہے لہٰذا ضابطے کے خلاف میں یہ قرارداد مسترد کرنے کی رولنگ دیتا ہوں۔ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے تحریک عدم اعتماد کو
انتہائی غیر آئینی طریقے سے آئین و قانون کے منافی قرار دے کر مسترد کردیا اور اجلاس کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا۔ اجلاس میں عدم اعتماد کی تحریک پربحث بھی نہیں کرائی گئی۔ جس پر اپوزیشن نے شدید شور شرابا، ہنگامہ آرائی اور احتجاج شروع کردیا۔ ایوان میں شدید نعرے بازی جاری رہی۔ ادھر حکومتی ارکان نے امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے کے نعرے لگائے۔
اپوزیشن نے اس غیر آئینی اقدام اور سپیکر کی جانب سے اپنے اختیارات غیر آئینی طور پر استعمال کرنے کے خلاف نہ صرف شدید نعرے بازی کی بلکہ دھرنا بھی دے دیا ۔ پھر یہ بھی ہوا کہ سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے سپیکر کی نشست پر بیٹھ کر اسمبلی کی کارروائی شروع کردی اپوزیشن جو ممبران اپنے ساتھ لے کر آئی تھی۔ ان کی ووٹنگ کا عمل اپنی نگرانی میں مکمل کروایا۔ یادرہے کہ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی
رولنگ اور عدم اعتماد مسترد کئے جانے کے بعد حکومتی ارکان قومی اسمبلی سے چلے گئے۔ جس کے بعد اپوزیشن نے مندرجہ بالا ووٹنگ وغیرہ والی کارروائی شروع رکھی۔ اسی دوران وزیراعظم عمران خان نے فوری طور پر قوم سے مختصر خطاب کیا اور کہا کہ عوام کی شدید خواہش کے مطابق ڈپٹی سپیکرنے میرے خلاف عدم اعتماد کی تحریک مسترد کردی ہے اور حق سچ کا بول بالا ہو گیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ اعلان بھی کر دیا کہ وہ صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان عارف علوی کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز دے چکے ہیں۔ اسی اثناء میں صدر مملکت نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے اور آئندہ تین ماہ کے اندر اندر انتخابات کروانے کا اعلان کر دیا۔
ملک بھر کے آئینی وقانونی ماہرین یہ سارے عوامل دیکھ کر سکتے میں آگئے کہ سارا کچھ کس طرح بے رحمی اور آئین اور جمہوری روایات کو یکسر فراموش کر کے کیا جارہا ہے۔ اس حوالہ سے سپریم کورٹ سے کافی حد تک امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں لیکن وہ بھی اگر سپریم کورٹ چاہے تو دوسرا یہ کہ قومی اسمبلی اپنی حیثیت میں سپریم کورٹ سے بھی سپریم ادارہ ہے لیکن کیا کریں کہ اقتدار کے رسیا ان جمہوری حکمرانوں نے پارلیمان کی توقیر مٹی میں ملا دی ہے۔ تحریکِ عدم اعتماد پر ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ پر ڈپٹی اٹارنی جنرل پاکستان راجہ خالد محمود خان نے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ راجہ خالد محمود خان نے کہا کہ آئین کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں اس لیے مزید حکومت کا دفاع نہیں کرسکتا، میں نے اپنی پوری زندگی میں کسی آمر کے ہاتھوں بھی آئین کی ایسی بے توقیری نہیں دیکھی۔ انہوں نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر نے غیر آئینی رولنگ دی ہے۔ یہ آئین اور جمہوری اقدار کے منافی اقدام ہے۔ میں اس کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ واضح رہے کہ تحریک عدم اعتماد کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت اور خصوصاً ریڈ زون میں سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے جبکہ شہر اقتدار میں دفعہ 144 بھی نافذ تھی، علاوہ ازیں میٹرو بس سروس کو بھی غیرمعینہ مدت کے لیے بند کردیا گیا تھا اور کسی بھی ناگہانی اور خطرناک صورتحال سے نمٹنے کے انتظامات مکمل تھے۔ یہ سارے کے سارے انتظامات اپنی جگہ درست اور قابل تحسین ہیں کہ حکومت کی طرف سے شدید احتجاج اور مظاہرے کے خطرات ٹل گئے۔ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ تاہم پارلیمانی روایات اور آئینی و جمہوری نظام کوان اقدامات کی وجہ سے جو نقصان پہنچا ہے وہ ناقابل تلافی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button