تازہ ترینخبریںپاکستان

وزیراعظم، صدر کے تمام احکامات سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط ہونگے، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے تمام سیاسی قوتوں اور ریاستی اداروں کو آئینی حدود کے مطابق کردار ادا کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم اور صدر کے تمام احکامات سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط ہوں گے جبکہ سماعت کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دینے کا بھی فیصلہ کرلیا۔

قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد بغیر ووٹنگ مسترد کیے جانے کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ازخود نوٹس لے لیا۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ملکی صورت حال سے متعلق ازخود نوٹس پر سماعت کی، بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم اور صدر کے تمام احکامات سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط ہوں گے۔

سپریم کورٹ نے ریاستی عہدیداروں کو کسی بھی ماورائے آئین اقدام سے روکتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتیں پرامن رہیں اور کوئی ماورائے آئین اقدام نہ اٹھایا جائے۔

عدالت نے سیکریٹری دفاع کو ملک میں امن وامان سے متعلق اقدامات پر آگاہ کرنےکا نوٹس جاری کیا جبکہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کر دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ رمضان شریف ہے، سماعت کو لٹکانا نہیں چاہتے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ کوئی حکومتی ادارہ غیر آئینی حرکت نہیں کرے گا، تمام سیاسی جماعتیں اور حکومتی ادارے اس صورت حال سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے حکم دیا کہ امن وامان کی صورت حال کو برقرار رکھا جائے، عدالت کا حکم آج کے لیے یہی ہے۔

چیف جسٹس نے پیپلزپارٹی کی درخواست مقرر کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ سپریم کورٹ ڈپٹی اسپیکر کے اقدامات کا جائزہ لے گی۔

عدالت نے حکم دیا کہ سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری دفاع امن وامان کی صورت حال سے عدالت کو آگاہ کریں اور ریاستی ادارے اورصوبائی قانون نافذ کرنے والے ادارے امن و امان کی صورت حال برقرار رکھیں۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ از خود نوٹس میں صدر مملکت کو پارٹی بنا دیتے ہیں، کل 63-اے صدارتی ریفرنس کی مختصر سماعت کے بعد سماعت کریں گے کیونکہ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس کس وجہ سے ملتوی ہوا، جس پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اور وکیل رہنما اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس امن و امان کی خراب صورت حال پر ملتوی ہوا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قومی اسمبلی کی کارروائی میں دائرہ اختیار سے زیادہ مداخلت نہیں کر سکتے، قومی اسمبلی کی کارروائی سے ہم آگاہ ہیں جبکہ پنجاب اسمبلی کی صورت حال پر درخواست آئے گی تو دیکھیں گے۔

اس دوران اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ ایاز صادق نے اسمبلی کی کارروائی کی، 200 سے زائد اراکین نے تحریک عدم اعتماد پرووٹ دیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکم جاری کر دیا ہے، اس پر دستخط کریں گے، جذباتی باتیں نہیں ہوں گی، آئین کو دیکھنا ہے۔

چیف جسٹس نے سپریم کورٹ بار اور سیاسی جماعتوں کو ازخود نوٹس میں فریق بنانے کا حکم دیا اور کہا کہ ججز تمام صورتحال سے آگاہ ہیں لہٰذا مزید سماعت کل کی جائے گی۔

کیس کی مزید سماعت کل پیر کے روز ایک بجے تک ملتوی کردی گئی۔

سپریم کورٹ کا لارجرز بینچ بنانے کا فیصلہ

بعد ازاں سپریم کورٹ نے سیاسی صورت حال پر لیے گئے نوٹس پرسماعت کے لیے 5 رکنی نیا لارجر بینج بنانے کا فیصلہ کیا۔

سپریم کورٹ کا نیا 5 رکنی لارجر بینچ کل دن ایک بجے نوٹس پر سماعت کرے گا۔

سپریم کورٹ میں زیر سماعت آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے ریفرنس پر کل ہونے والی سماعت کو بھی مؤخر کردیا گیا۔

آج ہونے والی سماعت کے تحریری حکم نامے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ آفس نے عدم اعتماد کے معاملے پر میڈیا میں رپورٹ ہونے والے معاملات کا نوٹ بھجوایا اور رپورٹس کے مطابق ڈپٹی اسپیکر نے عدم اعتماد کی تحریک آئین کے آرٹیکل 5 کی روشنی میں مسترد کی۔

سپریم کورٹ نے بتایا کہ نوٹ پر چیف جسٹس آف پاکستان کے چیمبر سے نوٹس جاری کیا گیا، سپریم کورٹ کے لیے سب سے اہم بات ملک میں امن و امان قائم کرنا ہے۔

تحریری حکمنامے میں کہا گیا کہ دیکھنا ہوگا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو آرٹیکل 69 کے تحت تحفظ حاصل ہے یا نہیں تاہم صدر مملکت اور وزیر اعظم کا جاری کردہ کوئی بھی حکم سپریم کورٹ سے مشروط ہوگا۔

سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری دفاع کو ملک بھر میں امن و امان قائم کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات کی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا گیا کہ ریاستی ادارے غیر قانونی یا ماروائے أئین اقدامات سے گریز کریں۔

قبل ازیں سپریم کورٹ نے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کا نوٹس لیا تھا، ترجمان سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ عدالت عظمیٰ نے ملک کی موجودہ صورتحال کا نوٹس لے لیا ہے۔

واضح رہے کہ کچھ دیر قبل ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو آئین و قانون کے منافی قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔

فواد چوہدری کے اعتراض کے فوری بعد ہی ڈپٹی اسپیکر نے اراکین قومی اسمبلی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم پاکستان کے خلاف اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد 8 مارچ 2022 کو پیش کی تھی، عدم اعتماد کی تحریک کا آئین، قانون اور رولز کے مطابق ہونا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی غیر ملکی طاقت کو یہ حق نہیں کہ وہ سازش کے تحت پاکستان کی منتخب حکومت کو گرائے، وزیر قانون نے جو نکات اٹھائے ہیں وہ درست ہیں لہٰذا میں رولنگ دیتا ہوں کہ عدم اعتماد کی قرارداد آئین، قومی خود مختاری اور آزادی کے منافی ہے اور رولز اور ضابطے کے خلاف میں یہ قرارداد مسترد کرنے کی رولنگ دیتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے آرٹیکل 54 کی شق 3 کے تحت تفویض کردہ اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے جمعہ 25 مارچ 2022 کو طلب کردہ اجلاس کو برخاست کرتا ہوں۔

اس رولنگ کے کچھ دیر بعد ہی وزیر اعظم عمران خان نے صدر مملکت کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز بھیجی تھی۔

بعد ازاں صدر مملکت عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 58 (1) اور 48 (1) کے تحت وزیراعظم کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے تجویز منظور دے دی۔

متحدہ اپوزیشن نے اس پیش رفت کو غیرقانونی اور غیرآئینی قرار دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے خلاف ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کی قرارداد مسترد کیے جانے پر سپریم کورٹ سے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ عمران خان نے ملک کو انتشار کی جانب دھکیل دیا ہے، امید ہے سپریم کورٹ آئین کو برقرار رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے گی۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ آئین کے مطابق عدم اعتماد پر ووٹنگ آج ہی ہونی ہے، متحدہ اپوزیشن نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ عدم اعتماد پر آج ہی ووٹنگ کے لیے ہم آج اسی وقت اپنے وکلا کے ہمراہ سپریم کورٹ پہنچیں گے۔

ٹوئٹر پر اپنے ویڈیو پیغام میں بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے اسپیکر کے خلاف بھی عدم اعتماد جمع کروا رکھی ہے، اب واحد آئینی اور جمہوری راستہ یہی ہے کہ سپریم کورٹ یہ فیصلہ دے کہ عدم اعتماد پر آج ہی ووٹنگ ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button