تازہ ترینخبریںکاروبار

خوراک اور ایندھن کی بڑھتی قیمتوں کے سبب مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ

کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کے ذریعہ پیمائش کردہ مہنگائی 22 جنوری کے بعد سے اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، جس کی وجہ توانائی کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ اور خوراک کی قیمتوں میں پہلے سے حاصل فوائد کو نقصان پہنچنا ہے۔

جنوری میں مہنگائی 13 فیصد ریکارڈ کی گئی، جب کہ فروری 2020 میں اس میں 12.4 فیصد کا دوسرا سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا۔

پاکستان بیورو آف شماریات (پی بی ایس) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جلد خراب ہونے والی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے صارفین کے زیراستعمال اشیا کی قیمتیں مارچ میں 12.7 فیصد تک پہنچ گئیں جو گزشتہ ماہ 12.2 فیصد تھیں۔

وزیراعظم عمران خان نے مارچ میں تیل کی قیمتوں میں کمی کی تھی، مارچ کے مہینے کے لیے موجودہ سطح پر منجمد تیل کی قیمتیں 30 جون تک اسی سطح پر برقرار رہیں گی، پی او ایل کی تمام مصنوعات پر سیلز ٹیکس کو کم کر کے صفر کر دیا گیا ہے، جس سے صارفین کو ریلیف دینے کے لیے مارچ میں ٹیکس باڈی کو 45 ارب روپے لاگت آئی۔

اسی طرح بجلی کے چارجز میں 5 روپے کمی کے فیصلے سے صارفین کے بلوں میں کمی آئے گی، ان عوامل سے ملک میں غیر خوراکی افراط زر پر قابو پانے کا امکان ہے۔

حالیہ مہینوں میں مہنگائی میں سال بہ سال اضافہ بنیادی طور پر ایندھن، بجلی، مکان کے کرائے، ٹرانسپورٹ اور جلد خراب نہ ہونے والی اشیائے خوردونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب ہے۔

وزارت خزانہ نے اپنی مارچ کی اپڈیٹ میں کہا کہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے عالمی معیشت کو 3 چیلنجز کا سامنا ہے جن میں مالیاتی پابندیاں، اشیا کی قیمتیں اور سپلائی چین میں رکاوٹیں شامل ہیں، اس میں مزید کہا گیا کہ ان چیلنجز نے عالمی افراط زر کو ہوا دی ہے اور زیادہ تر ممالک میں ترقی کی رفتار کو کم کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق مہنگائی میں کمی لانے کے لیے ضروری شرط یہ ہے کہ ماہانہ قیمتوں میں ممکنہ حد تک اضافے کو محدود کیا جائے، لہٰذا اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے حکومتی پالیسیوں کی توجہ اس ماہانہ اضافے کو محدود کرنے پر مسلسل مرکوز رہی۔

فی الحال بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی تناؤ کی وجہ سے بین الاقوامی اشیا کی قیمتوں میں مزید اضافے کی توقعات ہیں، حکومت، خاص طور پر ریلیف پیکجز کے ذریعے گھریلو صارفین کے لیے قیمتوں میں اس اضافے کو روکنے کے لیے ممکنہ اقدامات کر رہی ہے۔

پی بی ایس کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ 9 مہینوں میں خوراک کی افراط زر اب بھی بلندی پر ہے، شہری علاقوں میں یہ مارچ میں سال بہ سال 14.5 فیصد اور ماہ بہ ماہ 1.8 فیصد تک بڑھ گئی، جب کہ دیہی علاقوں میں قیمتوں میں یہ اضافہ 15.5 فیصد اور 2.3 فیصد رہا۔

تاہم پی بی ایس کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ دیہی علاقوں میں ریکارڈ کی گئی غیر خوراکی مہنگائی کی شرح شہری علاقوں کی نسبت زیادہ تھی ، یہ اس رجحان کے متضاد ہے جس میں عموماً شہری علاقوں میں زیادہ افراط زر کا سامنا ہوتا ہے۔

پاکستان میں جولائی سے مارچ کے درمیان مہنگائی کی اوسط شرح سال بہ سال بڑھ کر 10.77 فیصد ہوگئی، 21-2020 میں سالانہ سی پی آئی مہنگائی گزشتہ سال 10.74 فیصد کے مقابلے میں 8.90 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

اس کے ساتھ ساتھ بڑے شہری مراکز اور دیہی علاقوں میں گوشت، پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

شہروں میں غیر غذائی مہنگائی میں سالانہ 10.4 فیصد اور ماہانہ 0.1 فیصد اضافہ ہوا، جب کہ دیہی علاقوں میں بالترتیب 12.5 فیصد اور 0.2 فیصد اضافہ ہوا، غیر غذائی مہنگائی میں اضافہ بنیادی طور پر مارچ میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے سبب ہوا۔

گزشتہ ماہ کے مقابلے میں مارچ میں جن اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا، ان میں چکن 33.63 فیصد، پھل 15.17 فیصد، سرسوں کا تیل 8.73 فیصد، خوردنی گھی 8.32 فیصد، پیاز 7.01 فیصد، کوکنگ آئل 5.05 فیصد، چائے 1.92 فیصد، دودھ 1.52 فیصد اور بیسن 0.91 فیصد کے ساتھ شامل ہیں۔

شہری علاقوں میں ٹماٹر کی قیمتوں میں 36.53 فیصد، انڈے 14.75 فیصد، گندم 4.89 فیصد، آلو 3.68 فیصد، مصالحہ جات 2.38 فیصد، گڑ 1.10 فیصد، گندم کے آٹے کی قیمت میں 1.8 فیصد اور چینی کی 1.8 فیصد کمی ہوئی، اسی طرح کا رجحان دیہی علاقوں میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی دیکھا گیا۔

مارچ میں شہری علاقوں میں مہنگائی 8.9 فیصد رہی جو اس سے پچھلے مہینے 7.8 فیصد تھی، دیہی علاقوں میں یہ اضافہ 9.4 فیصد کے مقابلے میں 10.3 فیصد رہا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button