تازہ ترینخبریںسپیشل رپورٹ

دنیا بھر میں 50 فیصد سے زائد حمل غیرارادی ہوتے ہیں، اقوام متحدہ

دنیا بھر میں ہر سال کروڑوں خواتین کا حمل غیر ارادی (یعنی جوڑوں کا اس کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا یا منصوبہ نہیں ہوتا) ہوتا ہے۔

اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے مطابق ایک نئی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ دنیا بھر میں لگ بھگ 50 فیصد حمل (12 کروڑ 10 لاکھ) غیرارادی طور پر ٹھہراتا ہے جو ایک فراموش کردہ بحران ہے۔

عالمی آبادی کی 2022 کی سالانہ رپورٹ میں پاپولیشن فنڈ نے بتایا کہ ایسے 60 فیصد سے زیادہ غیر ارادی حمل کے بعد اسقاط حمل کرایا جاتا ہے۔

ایک تخمینے کے مطابق 45 فیصد اسقاط حمل غیرمحفوظ طریقے سے ہوتے ہیں جو 5 سے 13 فیصد ماؤں کی اموات کا باعث بنتے ہیں۔

عالمی ادارے کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر نتالیہ کامین نے بتایا کہ یہ رپورٹ آنکھیں کھول دینے والی ہے، غیر ارادی طور پر حمل ٹھہرنے کی دنگ کردینے والی تعداد اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم عالمی سطح پر خواتین اور لڑکیوں کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے میں ناکام ہوچکےہ یں۔

انہوں نے کہا کہ حاملہ ہونا یا نہ ہونا زندگی کا اہم ترین انتخاب ہوتا ہے مگر متاثرہ خواتین کے پاس یہ انتخاب ہی نہیں ہوتا۔

اس سے قبل 1990 سے 2019 کے دوران غیر ارادی حمل کی شرح میں کمی آئی تھی جو 15 سے 49 سال کی خواتین میں ہر ایک ہزار میں 64 تک آگئی تھی۔

مگر آبادی بڑھنے سے گزشتہ 30 برسوں کے دوران مجموعی طور پر اس طرح کے حمل کی شرح میں 13 فیصد اضافہ ہوا۔

پاپولیشن فنڈ کی تحقیق میں بتایا گیا ایک تخمینے کے مطابق دنیا بھر میں حمل سے بچنے کی خواہشمند 25 کروڑ 70 لاکھ خواتین محفوظ اور جدید طریقہ طریقوں کو استعمال نہیں کیا۔

47 ممالک میں 40 فیصد خواتین اس طرح کے کسی طریقہ کار کو استعمال نہیں کرتیں۔

اقوام متحدہ کے اس سال کے ڈیٹا میں 64 ممالک کی خواتین کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال میں ثابت ہوا کہ 24 فیصد خواتین اپنی صحت کے بارے میں فیصلہ کرنے سے قاصر ہوتی ہیں جبکہ 8 حاملہ ہونے سے بچنے کا فیصلہ نہیں کرپاتیں۔

رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف 57 فیصد خواتین جنسی اور تولیدی حقوق کے اپنے فیصلے کرنے کے قابل ہیں۔

محققین نے بتایا کہ ممالک کے غیر ارادی حمل کی روک تھام صنفی مساوات کی جانب پہلا قدم ہے۔

ڈاکٹر نتالیہ کامین نے کہا کہ جب انفرادی طور پر صحت، مستقبل اور جسم پر حقیقی انتخاب کا موقع انفرادی طور پر فراہم کیا جائے گا تو اس کے بعد معاشرے خوشحال ہوں گے جبکہ دنیا کا استحکام اور مساوات بہتر ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button