Column

اسلام آباد اعلامیہ ….. ناصر نقوی 

ناصر نقوی
اسلام آباد اعلامیہ امت مسلمہ کے لیے اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کا اڑتالیسواں اجلاس یقیناً انتہائی اہم ثابت ہوا لیکن اس کی اہمیت حقیقت کا روپ اسی صورت میں اہم دکھائی دے گی، جب او آئی سی کے اسلام آباد اعلامیہ پر عمل درآمد کیا جائے گا ورنہ پاکستان کی ساری محنت خاک میں مل جائے گی۔ دنیا اس وقت معاشی بحران میں مبتلا ہے لیکن اسلامی ممالک مفادات کے چکر میں حقائق سے نظریں چرا رہے ہیں حالانکہ عراق، مصر، لیبیا، یمن، افغانستان میں امریکہ بہادر صرف اسی لیے ظلم وستم ڈھا چکے ہیں کہ اسلامی دنیا کی تنظیم او آئی سی اپنا حقیقی کردار ادا کرنے میں ناکام ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال مسلم ممالک اگر اتحاد و اتفاق سے کوئی مشترکہ منصوبہ بندی کر لیتے تو کوئی ان کی جانب میلی آنکھ سے نہ دیکھتالیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا اور مفادات کی چکی نے سب کو پیس کر رکھ دیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اجتماعی مفادات کی بات کی جائے اور او آئی سی کو استحکام دیاجائے تاکہ جب بھی اس حوالے سے کوئی مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیاجائے تو اس پر سختی سے عملدرآمد کرکے دنیا کے ٹھیکیداروں کو واضح پیغام دیاجائے، اگر ایسا کیاجاتا تو آج کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ حل ہو چکاہوتا لیکن ابھی وقت گزرا نہیں ، فلسطینی اور کشمیری اپنی جدوجہد میں کمی نہیں آنے دے رہے، ان کی جانی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں بلکہ ان کا خون تاریخ کی نئی داستان رقم کررہاہے۔ اسلامی دنیا او آئی سی کے حوالے سے یک زبان ہو کر امت مسلمہ کے اجتماعی مفادات کی جدوجہد کرے ورنہ امریکہ بہادر اور یورپی ممالک اپنی حکمت عملی سے اسلامی ممالک کو ایک دوسرے سے لڑا کر اپنے مفادات حاصل کرتے رہیں گے۔
لمحہ موجود میں بھارت کشمیریوں اور اسرائیل فلسطینیوں پر تاریخ کی بدترین غنڈہ گردی کر رہا ہے ۔ خون ناحق بہایا جارہا ہے اور اسلامی دنیا چھوٹے چھوٹے مفادات میں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ انہیں عراق، لیبیا، مصر اور افغانستان کے حالات سے عبرت حاصل کرنی چاہیے کیونکہ اب عرب ممالک ترقی و خوشحالی کے سبز باغ دیکھتے ہوئے باری باری اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کررہے ہیں بلکہ دوسرے دوست ممالک کو بھی اس عمل کے لیے راضی کرنے کے لیے مصروف ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے جدت کے نام پر وہ کچھ کردکھایا جس کا کوئی مسلمان کبھی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ یہ طوفان اب رکنے کا نہیں، حالانکہ تمام اسلامی ممالک جانتے ہیں کہ یہودونصاریٰ سے دوستی کودین حق اسلام میں منع کیاگیاہے، پھر بھی سب کچھ دھڑلے سے ہو رہاہے، جس کا مطلب یہی ہے کہ ایجنڈے پر عملدرآمد اس سے بھی زیادہ اہم ہے کیونکہ اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں اسلامی دنیا کو درپیش مسائل کا تفصیلی جائزہ لیاجاچکا ہے اور اہم نکات میں انصاف، اتحاد اور ترقی کو شامل کیاگیا ہے۔
پاکستان نے یہ کانفرنس خوش اسلوبی سے کروادی حالانکہ ملکی سیاسی افراتفری کے حالات میں یہ کانفرنس ایک سے زیادہ مرتبہ ملتوی ہوتی دکھائی دی، حکومت اور ان کے وزراء کا دعویٰ تھا کہ اپوزیشن نے اس کانفرنس کو ناکام بنانے کے لیے غیر ملکی ایجنڈے پرعملدرآمد کے لیے اسلام آباد تک لانگ مارچ کا منصوبہ بنایا ۔ وزراء اور وزیراعظم نے اپوزیشن کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے
ہوئے اجتماعی تحریک کو ملک و ملت کے خلاف سازش بھی قرار دیا لیکن وہ بھول گئے کہ عوامی جمہوریہ چین کے صدر کی پاکستان آمد پر اسلام آباد میں ان کا دھرنا سامنے تھا اور نوازشریف حکومت نے یہی الزام عمران خان اور ان کی پارٹی پر لگایا تھا کہ یہ دھرنا غیر ملکی سازش ہے تاکہ چینی صدر پاکستان کا دورہ نہ کرسکیں اور پھر یہ دورہ ملتوی بھی ہوا تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایسے حالات و واقعات خالصتاً جمہوریت کا حُسن ہیں۔ حکومت کی اپوزیشن پر تنقید اور اپوزیشن کا حکومت سے اختلاف، سیاست کی پرانی روایت ہے، اِس لیے گھبرانا نہیں چاہیے۔آئین و قانون، تحریر و تقریر پر ہی نہیں، احتجاج، لانگ مارچ اور دھرنوں کی بھی اجازت دیتا ہے لہٰذا دونوں کو ہر صورت حال میں صبر و تحمل، برداشت اور رواداری کا مظاہر کرنا چاہیے۔اس بات کاثبوت افراتفری کے ماحول میں بھی اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس ہوگئی۔ اپوزیشن نے حکومتی شور پر ایسی حکمت عملی بنائی کہ کسی قسم کی رکاوٹ سے جگ ہنسائی نہیں ہوئی، حالانکہ بلاول بھٹو نے چیلنج بھی کیا تھا کہ اگر آئین و قانون کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر مناسب کارروائی نہیں کی گئی تو او آئی سی کانفرنس نہیں ہونے دیں گے لیکن یہ دھمکی محض سیاسی بیان ثابت ہوئی اور سپیکر اسد قیصر شدید دبائو میں بھی اپنے اختیار استعمال کرنے سے باز نہیں آ ئے اور اجلاس تعزیت کے بعد ملتوی کر دیا۔ بہرکیف ملکی سیاست اور بین الاقوامی سیاست کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں اس لیے اسلامی دنیا کو او آئی سی کے مشر کہ اعلامیہ کی پابندی کرنی ہوگی۔
اسلام آباد اعلامیہ کا تفصیلی جائزہ لیاجائے تو اس میں سب سے پہلے جمو ں و کشمیر کے لوگوں سے یکجہتی اور اقوام متحدہ، او آئی سی کی قراردادوں کی بنیاد پر حق خود ارادیت کی حمایت اور انسانی حقوق کی پامالی کی مذمت دکھائی دیتی ہے۔ یہی نہیں اس میں پانچ اگست دوہزار انیس کے بھارتی اقدام کو پرزور الفاظ میں مسترد بھی کیاگیا ہے، جس کے تحت کشمیر میں آبادیاتی تبدیلی کو سازش قرار دیا، اسی طرح پاکستانی حدود کی فضائی خلاف ورزی، مسافرطیاروں کو لاحق خطرہ اور سپر سانک میزائل کی بھارتی لانچنگ سے جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کے خطرات پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا،اس کے علاوہ بھارت سے عالمی قوانین کے اصولوں کی پاسداری اور حقائق تک رسائی کے لیے پاکستان کے ساتھ مشترکہ تحقیقات پر زور دیاگیا جبکہ جنوبی ایشیاء میں استحکام اور یو این او کے چارٹرکے مطابق علاقائی امن کی کوششوں کے لیے پاکستانی کردار کو سراہاگیا۔ اعلامیہ میں افغانستان، سوڈان، جبوتی، بوسنیا، صومالیہ اور مقبوضہ کشمیرکیساتھ یکجہتی کا اعادہ بھی کیا گیا۔اعلامیہ اسلام آباداس بات کاعزم ہے کہ کشمیر، فلسطین اور دیگر مسلم ممالک کے مسائل کے حل کے لیے منصفانہ مقاصد کی بھرپور حمایت کی جائے۔ مسلم اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کا تحفظ، مسلم امہ کے اندر اور باہر
سماجی،اقتصادی،تکنیکی،سائنسی ترقی اورانضمام پر مشترکہ حکمت عملی پر اس طرح عمل کیا جائے کہ پر امن بقائے باہمی، رواداری اور مشاورت کو فروغ حاصل ہوسکے۔اس موقع پر سال رواں میں ہی تنازعات اور امن کے فروغ کے لیے حکمت عملی بنانے کے لیے ایک وزارتی اجلاس کی تجویز بھی دی گئی۔ اعلامیہ میں دہشت گردی کی مذمت کے ساتھ اسے کسی بھی مذہب، تہذیب،نسل، قومیت اور ملک کے خلاف ناجائز اور بدترین اقدام کہاگیا جبکہ حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوششوں کے خلاف او آئی سی کے مضبوط موقف کا اعادہ کیاگیا۔ اس اجلاس میں مشترکہ مفادات کے تحفظ اور امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل پر بھی اتفاق ہوا تاہم اسلامی دنیا کے اسلامو فوبیا کے حوالے سے سخت ردعمل کے فقدان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاگیا کہ اس تاخیری حربے اور غیر ذمہ داری کی وجہ سے آج آزادی اظہار بنیادی حقوق اور دہشت گردی کی من مرضی سے تشریح کی جا رہی ہے جس کے باعث مسلمانوں کو پریشان کن صورتحال کا سامنا ہے اور اسلامو فوبیا، فلسطین کے معاملات میں مزید پیچیدگی پیداہوئی لیکن یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے ٹھیکیدار یہ جانتے ہیں کہ انھیں جب بھی چیلنج کا سامنا ہوگا، وہ اسلامی ممالک سے ہی ہوگا۔ ہمارے کمزور موقف اور مشترکہ حکمت عملی کے فقدان کی وجہ سے ہی افغانستان، یمن، شام کو تخت مشق بنایاگیا ہے اور قبل ازیں عراق، مصر اور لیبیا بھی اس صورتحال میں بھاری جانی و مالی قربانی دے چکے ہیں۔ حالات و واقعات کا تقاضہ ہے کہ دنیا کو غلام بنانے کی سوچ رکھنے والے طاقتور ممالک سے مشترکہ اور حل طلب حکمت عملی ون پوائنٹ ایجنڈے، امن و سلامتی کے حوالے سے نمٹاجائے اور ایسا جب ہی ممکن ہے جب اسلامی دنیا کی تنظیم او آئی سی کو مستحکم کیا جائے گا۔
پاکستان نے ہردور میں اس مقصد کے لیے اپنا بھرپور کردار اداکیا ہے۔پاکستانی عوام کا موقف بھی کبھی پوشیدہ نہیں رہا لیکن ہر اہم مسئلے میں اسلامی دنیا کو سازش کے تحت متحد نہیں ہونے دیاگیا۔موجودہ حالات میں امریکہ بہادر اور یورپی تسلط سے بچتے ہوئے مسلمان رہنمائوں کو اپنے مفادات، ترقی، خوشحالی کے لیے مشترکہ ایجنڈہ بنانا ہوگا تاکہ اجتماعی سوچ کو پروان چڑھا کر مسلم دنیا کو سراٹھا کر چلنے کا موقع مل سکے۔ اسلامی فوبیا کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے ہی سے امت مسلمہ کو استحکام نصیب ہو سکتا ہے۔ عراق، افغانستان، لیبیا، مصر اور شام کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔
اگر ان سے سبق نہ سیکھا گیا تو پھر اسلامی ممالک کو مستقبل میں مزید مشکلات سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اللہ کرے اسلام آباد اعلامیہ ماضی کی طرح محض اعلان ثابت نہ ہو بلکہ اس پر عملدرآمد سے مسلم ممالک کے مسائل حل ہوسکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button