Editorial

تحریک عدم اعتماد اور سیاسی درجہ حرارت

قومی اسمبلی کے اجلاس میں جمعہ کے روز وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک زیر بحث نہیں آئی اور سپیکر اسد قیصر نے قومی اسمبلی کا اجلاس مرحوم اراکین کے لیے دعائے مغفرت کے بعد کل پیر 28 مارچ تک ملتوی کردیاہے ۔سپیکر نے کہا کہ رکن قومی اسمبلی خیال زمان ، سابق صدر رفیق تارڑ، سینیٹر رحمان ملک، بشری رحمٰن، غلام عباس قریشی ، پشاور مسجد دھماکے میں شہید ہونے والوں اور وفات پانے والے دیگر اراکین کے لیے دعائے مغفرت کی جائے، وفاقی وزیر پیر نور الحق قادری نے دعائے مغفرت کرائی ، سپیکر نے اس موقع پر کہا کہ اس ایوان کی روایت رہی ہے کہ جب بھی کوئی رکن وفات پا جاتا ہے تو پہلے دن اجلاس بغیر کسی کارروائی کے ملتوی کردیا جاتا ہے اور ایجنڈ اگلے روز کے لیے ملتوی کردیاجا تا ہے،
یہ روایت اب سے نہیں بلکہ طویل عرصے سے جاری ہے، اب تک 24 ارکان کی وفات پر اس ایوان کی کارروائی ملتوی کی جاچکی ہے،اس دوران اپو زیشن لیڈر شہباز شریف بات کرنے کے لیے اپنی نشست پر کھڑے ہوئے ہی تھے لیکن سپیکر نے انہیں اجا زت نہیں دی بلکہ اجلاس کی کارروائی کل پیر کی شام 4بجے تک ملتوی کردی۔ اسمبلی اجلاس کا 15 نکاتی ایجنڈا جاری کیا گیا تھا جس میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی شا مل تھی، تحریک انصاف کی اتحادی جماعت قاف لیگ کے کسی رکن نے جمعہ کے روز اجلاس میں شرکت نہیں کی،
اجلاس میں ایم کیو ایم کا ایک جبکہ جی ڈی اے کے دو ارکان موجود تھے۔ قومی اسمبلی کے غیر معمولی اجلاس کے التوا پر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا کہ اسد قیصر سپیکر نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے ورکرہیں،پیر کو غیر آئینی عمل دہرانے نہیں دیں گے،اسی طرح چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیراعظم بھاگ رہے ہیں،اگلے ہفتے سابق ہو جائیں گے۔
گذشتہ روز پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے خیال ظاہر کیا کہ تین یا چار اپریل کو عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو گی اور اپوزیشن کے تمام ارکان کو مکمل پروٹیکشن دیں گے۔جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا کہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے مرحوم اراکین اسمبلی کے انتقال پر فاتحہ خوانی کے بعد روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اجلاس کل پیر شام چار بجے تک ملتوی کردیا ہے دوسری طرف اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف کل کے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد پر بحث شروع کرانے کے لیے پُرعزم ہیں مگر وزیرداخلہ کا خیال ہے کہ کم از کم ایک ہفتے بعد اِس پر بحث ہوگی اِس صورت حال سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ کل قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معمولی طور پر گرما گرم ہوگا کیوں کہ حزب اختلاف کل ہی تحریک عدم اعتماد پر بحث کا آغاز کرنا چاہے گی۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور ناکامی کے لیے دونوں اطراف سے دعوے کیے جارہے ہیں حالت ایسے ہیں کہ کچھ بھی دعویٰ نہیں کیا جاسکتا، مگر سیاسی درجہ حرارت بدستور بڑھتا جارہا ہے، کسی روز لگتا ہے کہ بازی اپوزیشن کے ہاتھ میں آگئی ہے تو اگلے روز اِس کے برعکس صورت حال نظر آتی ہے۔ ایک طرف تحریک عدم اعتماد کی صورت میں معاملہ ایوان کے اندر موجود ہے تو دوسری طرف ایوان کے باہر طاقت کے مظاہرے کیے جارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ سیاسی صورت حال عدم استحکام کا شکار ہونے کی وجہ سے ملکی معیشت پر بھی اِس کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اور سرمایہ کاروں کا پیسہ ڈوب رہا ہے کیوں کہ کاروباری طبقہ ملکی حالات کو دیکھ کر ہی سرمایہ کاری کرتا ہے لیکن جب اگلے دن یا اگلے پل کا ہی کچھ پتا نہیں ہوگا تو کوئی سرمایہ کار کیونکر سرمایہ کاری کرے گا غیر ملکی سرمایہ کار بھی سیاسی اور معاشی استحکام دیکھ کر ہی کسی ملک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیاسی صورت حال کبھی بھی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے موزوں نہیں رہی،
ہمیشہ اقتدار کے لیے رسہ کشی اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا عمل ہمہ وقت جاری رہتا ہے اسی لیے برسراقتدار جماعت عوام کے لیے کچھ کرپاتی ہے نہ ہی حزب اختلاف چین سے بیٹھتی ہے، حکومت کے خلاف سرگرم ایک قومی لیڈر ایک ٹی وی انٹرویو میں فرماتے ہیں کہ پٹرول کی قیمت عالمی مارکیٹ سے منسلک ہوتی ہے اِس لیے وہ اقتدار میں آکر کیسے پٹرول سستا کرسکتے ہیں ایسے ہی کئی سوالات کے جوابات اُنہوںنے وہی دیئے جو حقائق پر مبنی تھے اور موجودہ حکومت بھی وہی کچھ کررہی تھی تو پھر اچانک پیالی میں طوفان برپا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آگئی جبکہ عوام کو بتایا جارہا ہے کہ مہنگائی کے خلاف مارچ ہے لیکن آن کیمرہ آپ فرماتے ہیں کہ پوری دنیا میں مہنگائی ہے اِس کا مطلب تو یہی ہوا کہ سارے ہلے گلے کا مقصد محض سیاسی ہے اور عوام کو متوجہ کرکے انہیں جلسے اور اجتماعات کی رونق بنانے کے لیے اِسے مہنگائی مارچ جیسا نام دیا جارہا ہے۔
ہم قطعی یہ نہیں کہتے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف حزب اختلاف کوئی غیر آئینی قدم اٹھارہی ہے یا حکومت کچھ ایسا کررہی ہے ہم صرف یہ گذارش کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری سیاسی قیادت میں ایک دوسرے کو تسلیم اور برداشت کرنے کی روایت کب جنم لے گی ہم کب عوامی مینڈیٹ کا احترام سیکھیں گے کیوں کہ اب تک سیاسی قیادت اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کو انتخابی دھاندلی کا نام دیکرہمیشہ بےقصور ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتی رہی ہے۔ اگر حزب اختلاف کو تحریک عدم اعتماد کے معاملے میں کامیابی مل بھی جاتی ہے تو کیا موجودہ حکمران جماعت بطور حزب اختلاف اُسے تگنی کا ناچ نہیں نچائے گی؟ قدم قدم پررکاوٹیں کھڑی نہیں کرے گی؟ پھر سیاسی صورت حال مزید عدم استحکام کا شکار نہیں ہوگی؟  تب بھی کون متاثر ہوگا؟ پاکستانی عوام، کاروباری طبقہ اور ملکی معیشت، کیوں کہ تب اقتدار میں آنے والوں کو اتنی مضبوط اپوزیشن کیسے کچھ کرنے دے گی، نقصان ہوگا تو صرف اور صرف ملک و قوم یعنی بے چاری عوام کا، جس کے نام پر لانگ مارچ، جلسے اور جلوسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ آج حکمران جماعت کے ’’ضمیر جاگے‘‘ اراکین حزب اختلاف کے کام آرہے ہیں تو کیا ضمانت ہے کہ کل کلاں حکمران جماعت یہی فارمولا اِن کے خلاف استعمال کرے ، ’’ضمیر‘‘ تو کسی کا بھی کسی موقعے پر جگایا جاسکتا ہے اور لگتا یہی ہے کہ اگر آرٹیکل تریسٹھ اے کے سقم دور نہ ہوئے تو ’’بیداری ِ ضمیر‘‘ کا سلسلہ ایسا شروع ہو گا کہ کبھی رکنے کا نام نہیں لے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button