Editorial

او آئی سی اجلاس کا اعلامیہ

اسلام آبادکی میزبانی میں ہونے والے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے 48 ویں اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے لیے او آئی سی کے رابطہ گروپ نے ایکشن پلان منظور کرلیا ہے اوراب رکن ممالک مسئلہ کشمیر پر مل جل کر جاندار کوششیں کریں گے۔ رکن ممالک باقاعدگی سے نیویارک، جنیوا اور جدہ میں مل کرقابل عمل تجاویز تیار کریں گے۔ کشمیر کے مسئلے کو رکن ممالک انڈیا کے ساتھ دوطرفہ بات چیت میں اْجاگر کریں گے اور وہاں کی صورتحال پر نظر بھی رکھیں گے۔بدھ کو دو روزہ اجلاس کےاختتام کے بعد او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طحٰہ اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مشترکہ نیوز کانفرنس میں اجلاس کے اہم فیصلوں کا اعلان کیا۔ حسین ابراہم طحہ کے مطابق اجلاس میں جموں وکشمیر کے مسئلے پر تفصیلی تبادلہ خیال کرتے ہوئے واضح کیاگیا ہے کہ یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے اور ہماری حمایت اس کے ساتھ ہے اور استصواب رائے کشمیریوں کا حق ہے۔ قبل ازیں شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ افریقی ممالک کے مسائل پر خصوصی مندوب کا تقرر، نیویارک، جنیوا ، جدہ میں ملاقات میں قابل عمل تجاویز تیار کریں گے۔ صدر آزاد جموں و کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چودھری نے اسلامی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس سے تمام کشمیریوں کے نمائندے کے طور پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی تعاون رابطہ تنظیم مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی رکوانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے،مقبوضہ کشمیر میں پانچ اگست 2019کوبھارت کی طرف سے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کو واپس کرائے۔ اس کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت کے نتیجے میں جو قتل عام ہوا ہے، اقوام متحدہ کے نمائندوں کو اْس کی تحقیقات کے لیے مقبوضہ کشمیر جانے دیا جائے اور اقوام متحدہ کی کشمیر پر قراردادوں پر عملدرآمد کرایا جائے، واضح رہے کہ اجلاس کے پہلے روز وزیراعظم عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر اور فلسطین پر ہم کوئی اثر ڈالنے میں ناکام ہوگئے، ہم اختلافات کا شکار ہیں، ہماری آواز سنی نہیں جاتی، ہم تقسیم ہیں حالانکہ ہم 1.5 ارب آبادی ہیں، لیکن ہماری آواز کوئی نہیں سنتااِس لیے اتحاد ضروری ہے۔ بلاشبہ فلسطینیوں اور کشمیریوں کو حق خودارادیت نہیں دیا گیا، کشمیریوں سے بنیادی حقوق چھین لیے گئے، غاصبانہ قبضہ ہوا لیکن مسلم دنیا خاموش رہی، دن دیہاڑے فلسطینیوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے، لیکن اس کے خلاف کوئی حقیقی کام نہیں ہو رہا۔ کشمیریوں کا تشخص اور جغرافیائی ہیئت سب تبدیل کیا جارہا ہے، لیکن اس پر کوئی بات نہیں ہو رہی، اگر ہم مسلم ممالک متحد ہو کر متفقہ موقف اختیار نہیں کریں گے تو کوئی ہمیں نہیں پوچھے گا۔او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طحٰہ اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی مشترکہ پریس کانفرنس سے قبل یوم پاکستان کی مناسبت سے وفاقی دارالحکومت کی پریڈ گرائونڈ شکرپڑیاں میں شاندار فوجی پریڈ ہوئی ، تینوں مسلح افواج اور دیگر سکیورٹی فورسز کے دستوں نے مارچ پاسٹ جبکہ لڑاکا طیاروں نے فضائی مہارت کا شاندار مظاہرہ کیا۔ رواں سال یوم پاکستان کی تھیم ’شاد رہے پاکستان‘ رکھا گیا تھا۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی پریڈ کے میزبان اور مہمان خصوصی تھے ، وزیراعظم عمران خان، وزیر دفاع پرویز خٹک، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، نیول چیف ایڈمرل امجد خان نیازی اور ائیر وائس مارشل زبیر حسن خان یوم پاکستان کی مرکزی تقریب میں موجود تھے۔ تقریب میں وفاقی وزراءسمیت او آئی سی رکن ممالک کے وزرائے خارجہ نےبھی شرکت کی۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے خطاب میں ریاست کے قیام کے مقاصد، او آئی سی کو درپیش چیلنجز، اسلامو فوبیا، اتحاد امت دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ، جنوبی ایشیا کی صورت حال خصوصاً مسلح افواج کی قربانیوں پر تفصیلی روشنی ڈالی اورکہا کہ حصول پاکستان کا مقصد ایک ایسی فلاحی ریاست کا قیام تھا جو اسلامی اصولوں، ایک اعتدال پسند اور روادار معاشرے کا عملی نمونہ پیش کرے، مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے جان و مال کا تحفظ اور مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو۔ انہوں نے او آئی سی کو مزید مستحکم اور موثر بنانے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے دنیائے اسلام کو درپیش چیلنجز بالخصوص فلسطین اور بھارتی مقبوضہ کشمیر میں عوام پر جبروتشدد کا ذکر کیا اور کہا کہ او آئی سی اجلاس مسلم امہ کے اتحاد کا بہترین موقع ہے۔ بلاشبہ دنیا میں اسلاموفوبیا کی بڑھتی لہر نے مسلمانوں کو خطرات سے دوچار کررکھا ہے اور تمام مسلمان ایک غیر یقینی کیفیت میں مبتلا ہیں لیکن موجودہ حکومت کی مسلسل کاوشوں کے نتیجے میں اب اسلاموفوبیا کو عالمی سطح پر روکنے کے لیے اقوام متحدہ میں او آئی سی کی جانب سے پاکستان کی پیش کردہ قرارداد کی منظوری دی جاچکی ہے اور اب ہر سال 15 مارچ کو اسلاموفوبیا سے مقابلے کا دن بنایا جائے گا اور دنیا اس بات کو یقینی بنائے گی کہ اسلاموفوبیا کی کیفیت کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں جس طرح اسلامو فوبیا کے معاملے پر عالم اسلام نے پاکستان کی تحریک پر لبیک کہا اور او آئی سی سے موثر آواز بلند ہونے پر اقوام متحدہ نے بھی اِس اہم معاملے کو تسلیم کیا اِس کے پیچھے وہ تمام تر کاوشیں تھیں جو وزیراعظم عمران خان گزشتہ کئی سال سے کم و بیش ہر عالمی فورم پر کرتے رہے ہیں، الحمد اللہ پاکستان کی کاوشیں رنگ لائی ہیں اور انشا اللہ اسلاموفوبیا کا جلد خاتمہ بھی یقینی ہوگا، اگرچہ ہم اِس مہم کے پیچھے موجود تمام اسباب سے بخوبی جانتے ہیں جن کا واحد مقصد مسلمانوں کا غلط تشخص سامنے لاکر وقار مجروح کرنا تھا لیکن اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے اسلامو فوبیا کے سدباب کے لیے اعلان کے بعد اب اِس شدت میں ضرور بتدریج کمی ہوگی۔ جیسا کہ ہم نے وزیراعظم عمران خان کے او آئی سی اجلاس کے پہلے روز خطاب پر کہا تھا کہ اُمت مسلمہ کو اپنے باہمی مسائل کو مل جل کر حل کرلینا چاہیے اب وہ دور نہیں کہ مسائل کو طوالت دی جائے اب کم و بیش تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک صرف اقتصادیات کی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن ہم ابھی تک بندوقیں اٹھائے مورچوں میں خیمہ زن ہیں۔ اِس کا قطعی مطلب یہ نہیں کہ ہم دفاع سے غافل ہونے کا مشورہ دے رہے ہیں بلکہ اِس بات کا مقصد یہ ہے کہ ایک مسلمان ریاست اپنی طاقت کے استعمال سے دوسری مسلمان ریاست کو کمزور کررہی ہے اوردرحقیقت قیمتی پیسہ جنگ میں جھونک کر وہ خود بھی کمزور ہوکر اسلام دشمنوں کا راستہ صاف کررہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تمام مسلمان ممالک کو اب تمام تر اختلافات باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ دور کرکے اب معیشت کی طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ مسلمانوں کی حالت زار اور پہچان تبدیل ہوسکے اور او آئی سی کے اجلاس دنیائے اسلام کو درپیش مسائل کے حل اور مسلم امہ کے اتحاد کے لیے ایک بہترین پلیٹ فارم اور موقع ہے ، ہمیں یقین ہے کہ باہمی اتحاد اور تعاون سے تمام چیلنجز کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔پاکستان ذمہ دار ایٹمی مسلمان ریاست ہے اور ممالک کے ساتھ بلاتمیز دوستانہ تعلقات کا خواہاں اور امن چاہتا ہے، ہم اپنی خود مختاری پر آنچ نہیں دیتے لیکن دوسروں کی خود مختاری کا بھی احترام کرتے ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ پاکستان کی میزبانی میں ہونے والی او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس کے ناصرف فیصلوں پر جلد سے جلد عمل درآمد ہوگا بلکہ رکن ممالک بھی او آئی سی کو ایک مضبوط اور فعال پلیٹ فارم بنانے کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑیں گے کیوں کہ یہی وہ واحد پلیٹ فارم ہے جہاں نہ صرف کمزور اسلامی ریاستیں اپنے مسائل اُجاگر کرسکتی ہیں بلکہ سبھی مسلمان باہمی اتفاق و یگانگت کے ساتھ اُن مسائل کو خوش اسلوبی کے ساتھ طے کرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button