تازہ ترینخبریںپاکستان

آرٹیکل 95 (2) کے تحت رکن کے انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ میں تحریک عدم اعتماد سے پہلے سیاسی جلسے روکنے کیلئے سپریم کورٹ بار کی درخواست پر سماعت میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ ووٹ ڈالنا ارکان کا آئینی حق ہے، عدالت ابھی تک قومی اسمبلی کی کارروائی میں مداخلت پر قائل نہیں ہوئی، بہتر ہوگا کہ اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر لڑی جائے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے، جبکہ جسٹس منیب اختر 2 رکنی بینچ کا حصہ ہیں۔

سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت میں رش بڑھا تو چیف جسٹس نے غیر متعلقہ افراد کو باہر جانے کی ہدایت کی اور کہا کہ کچھ افراد اوپر گیلری میں چلے جائیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آج ہمارے مہمان بھی آئے ہوئے ہیں،سینئر وکلا بھی موجود ہیں، اس ماحول میں سماعت نہیں ہو پائے گی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ہدایت کی کہ ماسک پہننے کا بھی خیال کریں۔

وکیل سپریم کورٹ بار نے کہا کہ اسپیکر کو 25 مارچ کو اجلاس طلب کرنے کا کہا گیا۔

آرٹیکل 95 کے تحت 14 دن کے اندر اجلاس بلانا ہوتا ہے،عدالت نے دیکھنا ہے کہ کسی ایونٹ کےسبب کوئی ووٹ ڈالنے سے محروم نہ رہ جائے،ووٹ ڈالنا ارکان کا آئینی حق ہے۔

اپوزیشن کے وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ اسپیکر نے آئین کے خلاف ورزی کرکے آئین شکنی کی، اٹارنی جنرل نے کہاکہ جن پر پہلے آرٹیکل 6 لگا ہے اس پر تو عمل کروالیں۔

وکیل سپریم کورٹ بار نے کہاکہ 14 دن سے زیادہ تاخیر کرنے کا اسپیکر کے پاس کوئی استحقاق نہیں،عدم اعتماد پر فیصلے تک اجلاس غیرمعینہ مدت تک ملتوی نہیں کیا جاسکتا۔

وکیل سپریم کورٹ بار نے کہا کہ رول 37 کی خلاف ورزی صرف بے ضابطگی نہیں ہوگی۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت ابھی تک قومی اسمبلی کی کارروائی میں مداخلت پر قائل نہیں ہوئی،عدالت صرف چاہتی ہے کہ کسی کے ووٹ کا حق متاثر نہ ہو،ہم زیادہ گہرائی میں جانا نہیں چاہتے، یہ تمام نکات اسپیکر کے سامنے اٹھائے جاسکتے ہیں۔

فاروق ایچ نائیک نے اسمبلی اجلاس طلب کرنے کا نوٹس سپریم کورٹ میں پیش کیا اور کہاکہ اسپیکر نے آئین کی خلاف ورزی کر کے آئین شکنی کی، اسپیکر قومی اسمبلی آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کے مرتکب ہوئے،اٹارنی جنرل پاکستان نے کہاکہ آرٹیکل چھ کی لینگویج پڑھ لیجیے، جن لوگوں پر آرٹیکل 6 لگا ہے پہلے ان پر عمل کروا لیں،آرٹیکل 6 سے متعلق فاروق ایچ نائیک کی بات پر چیف جسٹس پاکستان مسکرا دیے۔

جسٹس منیب اختر نے کہاکہ آرٹیکل 17 سیاسی جماعتیں بنانے سے متعلق ہے، آرٹیکل 17 کے تحت حقوق سیاسی جماعت کے ہوتے ہیں،آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے، آرٹیکل 95 (2) کے تحت رکن کے انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں، نواز شریف اور بینظیربھٹو کیس میں عدالت ایسی آبزرویشن دے چکی ہے۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد اجتماعی حق تصور کیا جاتا ہے،ایک انفرادی ووٹ کو سیاسی جماعت کے بجائے کیسے گنا جاسکتا ہے؟ اپنی درخواست کے قابلِ سماعت ہونے پر دلائل دیں، چیف جسٹس کی وکیل سپریم کورٹ بار کو ہدایت۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ بار چاہتی ہے کہ اراکین اسمبلی جس کو چاہیں ووٹ ڈالیں،بار اگر زیادہ تفصیلات میں گئی تو جسٹس منیب اخترکی آبزرویشن رکاوٹ بن سکتی ہے،سوال یہی ہے کہ ذاتی پسند نا پسند پارٹی موقف سے مختلف ہوسکتی یا نہیں؟

جسٹس منیب اختر وکیل سپریم کورٹ بار نے کہاکہ تمام اراکین اسمبلی کو آزادانہ طور پر ووٹ ڈالنے کا حق ہونا چاہیے، وکیل سپریم کورٹ بار آئین کی کس شق کے تحت رکن اسمبلی آزادی سے ووٹ ڈال سکتا ہے؟آرٹیکل 91 کے تحت ارکان اسپیکر اور دیگر عہدیداروں کا انتخاب کرتے ہیں۔

جسٹس منیب نے کہاکہ اگر کوئی ممبر ووٹ ڈالنے جارہا ہوتو کوئی کیسے کہے گا کہ یہ ووٹ ڈالنا ان کا حق نہیں؟ سپریم کورٹ بار کا کیس آئین کی کس شق کے تحت ہے یہ تو بتا دیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button