Column

سیاست ،کھیل کم تماشا زیادہ ….. امتیاز احمد شاد

 امتیاز احمد شاد

ہر کھیل کے بنیادی اصول طے ہوتے ہیں۔جو کھلاڑی ان قوانین یا اصولوں سے روگردانی کرتا ہے یقینا وہ میدان سے آﺅٹ کر دیا جاتا ہے۔ سیاست بھی ایک کھیل ہے اور کھیل میں ہار جیت ،کامیابی ،ناکامی لازم و ملزوم ہیں۔ جمہوری سیاست میں داﺅ پیچ اور نمبر گیم بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ جن ممالک میں جمہوریت ہے ، وہاں کامیابی اور ناکامی کا اندازہ آسانی کے ساتھ لگایا جا سکتا ہے۔ پہلے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ فلاں پارٹی کا منشور اسے کامیاب کرے گا اور فلاں کے منشور میں خامی ہے لہٰذا کامیابی ممکن نہیں۔ لیکن پاکستان میں کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں سیاست،کھیل کم تماشا زیادہ ہے۔ کل کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ پیش گوئی اور تجزیہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب کھیل کے اصول معلوم ہوں اور کھیل بھی اصولوںکے تحت ہورہا ہو۔ ہمارا تو رونا ہی یہی ہے کہ چند افراد کے ہاتھوں میں اس قوم کی تقدیر ہے، ان میں سے کسی ایک فرد کی سوچ میں تبدیلی یا دو افراد کے گٹھ جوڑ سے سارا کھیل الٹ سکتا ہے۔ اس لیے موجودہ سیاسی کھیل بھی وہی کھلاڑی کھیل رہے ہیں ،جن کے ہاں اور ناں پر پوری قوم کا مستقبل استوار ہے۔

کل کے بارے میں کوئی بات یقین کے ساتھ نہیں کی جا سکتی مگر یہ طے ہے کہ اب کے بار بات کسی کے ٹھہرنے یا جانے کی نہیں، سوال یہ ہے کہ ایسا کیا ہوا کہ اچانک ملک کی تمام سیاسی جماعتیں عمران خان کی رخصتی کویقینی بنانا چاہتی ہیں۔ بہت سے دوست عمران خان کے جانے کی کئی وجوہات بیان کرتے نظر آتے ہیں مگر ہمارے ایک سنیئر صحافی اور زمانہ طالبعلمی سے شناسا دوست نے گذشتہ دنوں اپنے کالم میں عمران خان کے جانے کی تین بنیادی وجوہات بیان کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب عمران خان کی نہ صرف حکومت بلکہ جماعت بھی ختم ہو جائے گی۔ ان کے بقول عمران خان کی حکومت اسٹیبلشمنٹ لائی تھی، وہی چلا رہی تھی لیکن اب اس نے ہاتھ اٹھا کر غیرجانبداری اختیار کر لی ہے لہٰذا عمران خان کا جانا ٹھہر گیا۔ اگر اس تھیوری کو مان لیا جائے کہ عمران خان کو لانے والے اب عمران خان سے مایوس ہو گئے ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ ان کو لانا چاہتی ہے جن کے میمو گیٹس اور ڈان لیکس کے قصے آج بھی ریاست اور اس کے اداروں کو تباہ کرنے کے لیے بطور ثبوت کافی ہیں۔ کیا وہ عمران خان کواس بات پر تنہا چھوڑ جائیں گے کہ اس نے ہر محاذ پر اس ہندوستان کو دنیا کے سامنے ننگا گیا جس کو میرے وطن کے ظل سبحانی بغیر ویزوں کے شادیوں پر بلاتے ،پگ اور ساڑھیوں کا تبادلہ کرتے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کے جانے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ بدترین بوکھلاہٹ کا شکار ہو ہیں جو میڈیا اور اپوزیشن کے خلاف ان کی کارروائیوں اور لہجے کے بے قابو ہونے سے عیاں ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ عمران خان جن کے خلاف آج بات کر رہے ہیں اور بقول آپ کے ، ان کا لہجہ بے قابو ہے ان لوگوں کے خلاف وہ پہلے دن سے اسی لہجے میں بات کرتے آئے ہیں۔ ایسا نہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک لانے پر وہ ان کے خلاف ہو گئے ہوں۔ عمران خان نے تو پورا الیکشن اسی لہجے اور انداز سے لڑا اور اپنی پہلی تقریر میںان کا کہنا تھا کہ میری حکومت رہے یا نہ رہے میں انہیں نہیں چھوڑوں گا اور وہ آج بھی اسی لہجے میں وہی بات کر رہے ہیں۔ ہمارے سنیئر دوست نے تیسری وجہ یہ بیان کی ہے کہ عمران خان نے ان دو چیزوں کی آڑ لینا شروع کردی ہے جو پاکستان کے اندر حکمران اپنے اقتدار کا سورج غروب ہوتا دیکھ کر لیتے ہیں۔ ایک یہ کہ امریکہ مجھے ہٹارہا ہے اور دوسرا وہ اسلام کا نام استعمال کرنے لگ جاتا ہے۔ اگر عمران خان کی اس وقت کی تقاریر نکال کر سن لیں جب وہ اپوزیشن میں تھے تو واضح ہو جائے گا کہ وہ تب بھی امریکہ کی اجارہ داری کے خلاف تھے ،امریکہ نے جن مسلم ممالک پر دھاوا بولا اس نے ہر لحاظ سے امریکہ کی مذمت کی،پاکستان میں ڈرون حملوں کے خلاف مظاہرے اور دھرنے دیئے ۔اس وقت یہی دوست کہتے تھے کہ اپوزیشن میں رہ کر یہ باتیں کرنا آسان ہیں ۔ آج وہ وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی وہی موقف رکھتے ہیں مگر کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم کا یہ لہجہ نہیں ہونا چاہیے۔
حیرانی اس بات کی ہے کہ عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہنے والے اس بات پر سیخ پا ہیں کہ عمران خان یہودیوں اور یورپی یونین کے خلاف بات کیوں کر رہا ہے؟بعض دوست کسی حال میں بھی خوش نہیں ہوتے۔ کیا ہمارے پاس ثبوت نہیں کہ جو بھی امریکہ بہادر کے خلاف گیا،صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا؟یہ الگ بات ہے کچھ لوگ امریکہ کے خلاف فقط نعرے بازی تک محدود رہے اور کہتے رہے کہ امت مسلمہ کا کیس لڑ رہے ہیں،مگر عمران خان نے بطور وزیر اعظم ہر اس فورم پر امریکہ کی جارحیت کو نشانہ بنایا جو قوم کی آواز ہے تو اب ہمارے دوستوں کو ہضم نہیں ہو رہا۔ رہی بات یہ کہ وہ اسلام کا نام استعمال کر تا ہے ،تو بصد احترام یہ بتا یا جائے کہ کیا عمران خان کو یہودیت یا عیسایت کا پرچار کرنا چاہیے؟ خدا کے بندو اب یہ روش چھوڑ دو کہ جو آپ کے سکول آف تھاٹ سے تعلق رکھتا ہے بس وہی مسلمان ہے اور اسے ہی اسلام کا نام لینا چاہیے ۔کبھی ان لوگوں پر یہ سوال اٹھایا گیا جن کی نسلیں اسلام کے نام پر مال بناتی آئیں اور آج بھی ان کا ذریعہ معاش اسلام کے نام پر چندہ اکھٹا کرنا ہی ہے۔ عمران خان نے کیا غلط کیا؟ کیا اسلاموفوبیا پر دنیا کو آگاہی دینا اور اقوام متحدہ میں نہ صرف آواز بلند کرنا بلکہ قرار داد تک منظور کروانا،اسلام کا نام استعمال کرنا ہے؟آپ کہتے ہیں کہ عمران خان ہر بات میں ”ریاستِ مدینہ“ کا نام لیتا ہے عملاً عمران خان اور ان کی حکومت سنجیدہ نہیں؟ مجھے نہیں معلوم آپ سنجیدگی سے کیا مراد لیتے ہیں؟فقراءاور مساکین کے لیے پناہ گاہیں اورلنگر خانے کھولنا کیا ریاست مدینہ کے خلاف کام ہے؟کیا آپ کی نظر میں پسے ہوئے طبقے کو راشن کارڈ اور صحت کارڈ دینا اسلامی نظریہ کے خلاف ہے؟کیا رحمت العالمین اتھارٹی قائم کر کے سیرت نبی ﷺ کو عام کرنا اور سکولز کالجز اور یونیورسٹی میں قرآن اور سیرت کی تعلیم نہ صرف لازمی قرار دینا بلکہ ڈگری کے حصول کو قرآن اور سیرت کی تعلیم کے ساتھ مشروط کرنا کیا آپ کی نظر میںغیر اسلامی فکر کو عام کرنا ہے؟آپ نے الزام لگایا کہ ذاتی حوالوں کو ایک طرف رکھ کر اگر حکومت کے عملی اقدامات کو دیکھا جائے تو بھی عمران خان کی حکومت میں ہر معاملے پرتوجہ دی گئی لیکن شریعت اور ریاستِ مدینہ کی طرف کوئی پیش قدمی نہیں کی گئی۔آپ کے نزدیک عمران خان ریاستِ مدینہ کے مقدس لفظ کو ایک سیاسی حربے کے طور پر استعمال کررہے ہیںجس کی مثال دیتے ہوئے آپ نے کہا کہ اگر وہ واقعی اس کا قیام چاہتے تو پھر وزارتوں کے سکور کارڈ میں وزیرمذہبی امور پیر نور الحق قادری کو پہلے نمبر پر آنا چاہیے تھا لیکن اس میں تو وزیر مواصلات مراد سعید پہلے نمبر پر ہیں جبکہ وزیرمذہبی امور کا سرے سے نام ہی نہیں ۔آپ کی اس مثال سے ہی سمجھ آگیا کہ آپ عمران خان کی مخالفت کیوں کررہے ہیں؟آپ نے فرمایا کہ عمران خان جھوٹ بھی بولتا ہے اور یوٹرن کا ماہر بھی ہے، جو ریاست مدینہ کے نظریہ کے برعکس ہے تو میری آپ سے دست بستہ درخواست ہے کہ ،کیا آپ کو یقین ہے کہ عمران خان کے مقابل آنے والے ان خامیوں سے پاک ہیں؟

جواب دیں

Back to top button