Column

محفوظ ہمارے بچے ۔۔۔۔۔۔ عقیل انجم اعوان

عقیل انجم اعوان

بچے کسی درخت کی شاخ پرلگے ان پھولوں کی مانند ہو تے ہیں جوصبح کی ٹھنڈی ہوا کے چلنے سے جھومتے اورخوب مہکتے ہیں۔ ان کی یہ مہک سارے ماحول میں اک دلکشی سی پیدا کردیتی ہے۔ یہ پھول بہت ہی نازک ہوتے ہیں ذرا سی سختی برداشت نہیں کرتے کہ مرجھا جاتے ہیں ۔ یہ سختی چاہے موسم کی ہو یا معاشرے کی،موسم تو خیر قدرت کا معاملہ ہے مگر معاشرے کا وجودتو ہم سب سے ہے۔ اس لیے ان پھولوں کی حفاظت کی ذمہ داری پورے معاشرے پر عائد ہوتی ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت صرف پاکستان میں دو کروڑکے قریب بچے تعلیم سے دور اور ایک کروڑ سے زائدبچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔آخراتنی بڑی تعداد میں بچے اپنے بنیادی حق تعلیم سے محروم اور مشقت پر مجبور کیوں ہیں؟ اس صورت حال کا ذمہ دار کون اور سدباب کیا ہوگا۔
چائلڈ لیبر کے ذمے دار معاشرے کے تین فریق ہیں۔ پہلے نمبر پر مزدوربچوں کے والدین، دوسرے نمبر پر وہ لوگ جو بچوں سے کام لیتے ہیں اور تیسرے نمبر پر حکمران ہیں۔ اگرمزدور بچوں کے والدین سے پوچھا جائے کہ وہ اپنے بچوں سے محنت مشقت کیوں کراتے ہیں تواکثر والدین غربت اور مہنگائی کا رونا روتے نظر آتے ہیں کہ مالی وسائل کی کمی کے سبب بچوں کومشقت پر لگا دیتے ہیں تاکہ وہ ان کا سہارا بن سکیں۔پاکستان میں ایسے افراد کی کمی نہیں ہے جو اپنی صنعتوں، کارخانوں، بھٹوں، کھیتوں،ورکشاپس،ہو ٹلوں اور گھروں میں بچوں سے کام لیتے ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں جو غریب کی مجبوری سے فائدہ ا ±ٹھاتے ہیں۔یہ لوگ بچوں سے پورا کام لیتے لیکن اُجرت تھوڑی دیتے ہیں ،بچوں کواُجرت کم دینا پڑتی ہے اس لیے زیادہ تر بچوں کو کام پر رکھا جاتا ہے ،یہ لوگ بچوں سے خوب مشقت کرواتے ہیں اوراگربچے سے کوئی چھوٹی موٹی غلطی ہوجائے تو بری طرح تشدد کا نشانہ بنا تے ہیں۔ بڑے بڑے سیاست دانوں اور امراءکے گھروں، کار خانوں، صنعتوں اور کھیتوں میں یہ ننھے مزدور اپنے خون پسینہ بہا کر اپنے غریب ہونے کی سزا کاٹ رہے ہیں۔اس ساری صورت حال سے واضح ہوتا ہے کہ چائلڈلیبر کے اصل ذمہ دار ہمارے سابق حکمران ہی ہیں جن کی ناقص پالیسیوں کے سبب چائلڈ لیبر میں اضافہ ہوا۔
ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کی قیادت میں ایڈوائزرٹو گورنر پنجاب عنازہ احسان کی زیر نگرانی غریب بچوں کے تحفظ کے لیے ”محفوظ ہمارے بچے“ مہم شروع کی گئی ۔اس تقریب کا باقاعدہ افتتاح گورنر ہاﺅس میں ہوا اور عنازہ احسان نے کہاکہ پاکستان میں، بچے کل آبادی کا قریباً 48 فیصد کے قریب ہیں، تاہم یہ بچے اپنے بنیادی انسانی حقوق جیسے زندہ رہنے کا حق، تعلیم، صحت اور تحفظ سے محروم ہیں، ایسا کیوں ہے ؟ وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہم انہیں بنیادی حقوق دینے میں کامیاب نہیں ہو پارہے ، یہ سلگتا ہوا سوال ہے۔ پاکستان کے آئین اور یو این سی آر سی سمیت بین الاقوامی معاہدوں میں درج ہے کہ بچوں کو تعلیم صحت اور سکیورٹی فراہم کی جائے گی مگر یہ آئین اور کتاب سے نکل کر عمل درآمد کی شکل میں کب نظر آئے گا ، میں بھی منتظر ہوں۔
بلاشبہ موجودہ حکومت اس بارے بہت سنجیدہ نظر آتی ہے مگر عام لوگوں کی سطح پر شعور اور ادراک کا بہت فقدان نظر آتا ہے۔ پاکستانی آئین کے آرٹیکل 25(1) میں کہا گیا ہے کہ تمام شہری قانون کے سامنے برابر اور قانون کے مساوی تحفظ کے حقدار ہیں“۔ آرٹیکل 37(a) میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی بچے کو تشدد یا دیگر ظالمانہ، غیر انسانی یا ذلت آمیز سلوک یا سزا کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔لہٰذا آئین پاکستان کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور سماجی قدریں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ ہر بچے کا حق ہے کہ وہ ٹھیک طرح سے پیدا ہو بالکل ویسے ہی جیسے ایک امیر اور ترقی یافتہ معاشرے میں پیدا ہوتا ہے۔ ہر بچے کو صحت مند خاندانی زندگی گزارنے اور استفادہ حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ہر بچے کا حق ہے کہ وہ بہترین طریقوں پر مبنی حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق پرورش پائے اور معاشرے کا حصہ دار رکن بنے۔ہر بچے کو بنیادی ضروریات تک رسائی کا پورا حق حاصل ہے۔ہر بچے کوتعلیم ، صحت اور خوراک تک رسائی حاصل کرنے کا حق ہے اور یہ حق اسے مہیا کرنا ہر فرد ، حکومت اور ریاست پر پوری ذمہ داری عائد کرتی ہے۔اِس لیے بچوں کو اظہار رائے کی آزادی کاپوراپورا حق حاصل ہے اور ہر قسم کی معلومات اور خیالات تک رسائی انہیں وصول اور فراہم کر نے اور ان پر بات کرنے کا بھی حق ہے بشرطیکہ کہ وہ اس کی عمر سے مطابقت رکھتے ہوں۔
اقوام متحدہ کے چائلڈ رائٹس کا آرٹیکل 14 حکومتوں کو بچوں کے فکر، ضمیر اور مذہب کی آزادی کے حق کا احترام کرنے کی ترغیب دیتا ہے جبکہ آرٹیکل 15 بچوں کو انجمن کی آزادی کا حق تفویض کرتا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان آرٹیکلز پر عملدرآمد ہو رہا ہے؟کیا بچے اپنے بنیادی حقوق کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں ؟کیا عملی طور پر معاشرہ ، سول سوسائٹی اور حکومت ان کے لیے وہ سب کچھ کر پا رہی ہے جو کہ ان کا حق ہے تو جواب کافی تکلیف دہ ہے۔آج صورتحال یہ ہے کہ بہت سے بچے سکولوں میں نہیں بلکہ باہر کوڑا کرکٹ چنتے نظر آتے ہیں ، وہ چائلڈ لیبر کی چکی میں پستے ہوئے ملتے ہیں ، وہ کتابوں میں کھوئے ہونے کے بجائے کسی بازار کی بھول بھلیوں میں مارے مارے پھرتے نظر آتے ہیں۔ہماری حکومت پچھلے طویل عرصے کی پھیلی ہوئی گندگی دھو رہی ہے مگر ہمیں بہت وقت چاہیے اور ساتھ بھی۔ بچے سانجھے ہیں ان کا درد سانجھا ہے تو اس کے لیے محنت اور کام بھی سانجھا کرنا ہو گا تب ہی ہم بچوں کو ایک محفوظ مستقبل دے سکیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button