تازہ ترینخبریںدنیا

جوہری ہتھیاروں کا بٹن کس کے پاس ہوتا ہے؟

جب 27 فروری کو روسی صدر نے اپنے جوہری ہتھیاروں کو ’خصوصی الرٹ‘ پر رکھنے کا حکم دیا۔ تو اکثر لوگ یہ سواال کرنے لگے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے پروٹوکول کیا ہیں؟ ان تباہ کن ہتھیاروں کے ذخیرے کی چابیاں کس کے پاس ہیں؟ روس، امریکہ، چین اور برطانیہ میں ایٹمی ہتھیاروں کا بٹن کون دبا سکتا ہے؟

سابق امریکی میزائل لانچ آفسر بروس بلیئر، جو اب اس دنیا میں نہیں رہے، نے 70 کی دہائی میں امریکہ کے انٹیلی جنس جوہری میزائل اڈوں پر کام کیا۔

بروس بلیئر نے کہا تھا ’ہمیں منٹ مین کہا جاتا تھا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حکم ملنے پر ہم ایک منٹ میں ایٹمی میزائل داغ سکتے ہیں‘۔

بروس اور ان کے ساتھی ہر وقت کمپیوٹر کی اس سکرین پر نظر رکھتے تھے جس پر کسی بھی وقت میزائل داغنے کا حکم آ سکتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’امریکی نظام میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا حکم صرف ایک شخص دے سکتا ہے اور وہ ہے ملک کا صدر‘۔

’اسی لیے امریکی صدر کے ساتھ ہر وقت مخصوص لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے پاس ایک بریف کیس ہوتا ہے جسے نیوکلیئر فٹ بال کہتے ہیں‘۔

یہ سیاہ رنگ کا چمڑے کا بریف کیس دیکھنے میں بہت ہی عام سا ہوتا ہے۔ لیکن اس کے اندر خاص آلات ہیں جن کے ذریعے صدر کسی بھی وقت اپنے سینیئر مشیروں اور کچھ دوسرے انتہائی اہم لوگوں سے بات کر سکتے ہیں۔

بروس بلیئر کا کہنا تھا، ’اس بریف کیس میں ایک کارٹون کتاب کی طرح کا صفحہ بھی ہے، جس میں گرافکس کے ذریعے جنگی منصوبے، جوہری میزائل اور ان کے اہداف کی تفصیلات درج ہیں۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر حملہ ہوا تو کتنے لوگ مارے جانے کا امکان ہے ۔ صدر کو ان باتوں کو پلک جھپکتے ہی سمجھنا ہوتا ہے۔‘

فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق 2022 کے آغاز تک دنیا کے نو ممالک کے پاس تقریباً 12 ہزار 700 جوہری میزائل موجود ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر روس کے پاس ہیں اور امریکہ اس معاملے میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کے پاس ایسے پانچ ہزار سے زیادہ میزائل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق روس کے پاس 5977، امریکہ کے پاس 5428، چین کے پاس 350، فرانس کے پاس 290، برطانیہ کے پاس 225، پاکستان کے پاس 165، انڈیا کے پاس 160، اسرائیل کے پاس 90 اور شمالی کوریا کے پاس 20 ایٹمی میزائل ہیں۔

امریکہ میں میزائل داغنے کا عمل پینٹاگون وار روم سے شروع ہوتا ہے لیکن اس کے لیے صدارتی حکم کی ضرورت ہوتی ہے۔

لیکن صدر کا حکم اسی وقت مانا جاتا ہے جب وہ میزائل لانچ آفسر کو اپنی خاص شناخت بتاتے ہیں اور یہ شناخت بسکٹ نما پلاسٹک کارڈ میں ہوتی ہے۔

امریکی صدر کو یہ کارڈ ہمیشہ اپنے پاس رکھنا ہوتا ہے۔ یہ وہ کارڈ ہے جس کی وجہ سے امریکی صدر کو دنیا کا طاقتور ترین شخص کہا جاتا ہے۔ صدر سے منظوری ملنے کے بعد چند منٹوں میں ایٹمی میزائل لانچ کیا جا سکتا ہے۔

ایگور سیزگن اسلحہ کے ماہر ہیں۔ وہ روس کے رہنے والے ہیں اور کبھی وہاں کی حکومت کے لیے کام کرتے تھے۔۔

سنہ 1999 میں روس نے ان پر لندن کی ایک کمپنی کو عسکری انٹیلی جنس فراہم کرنے کا الزام لگایا۔ ایگور نے بے گناہی کا دعویٰ کیا لیکن اُنھیں 11 سال قید میں رکھا گیا۔ اُنھیں 2010 میں جیل سے رہائی ملی جس کے بعد اُنھوں نے لندن میں سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب وہ برطانوی دفاعی تھنک ٹینک میں سینیئر فیلو ہیں۔

ایگور بتاتے ہیں، ’امریکہ میں جوہری فٹ بال کی طرح، روس کے صدر کے پاس بھی ایک جوہری بریف کیس ہوتا ہے جس میں جوہری میزائلوں کے کوڈ ہوتے ہیں۔ یہ بریف کیس ہمیشہ صدر کے آس پاس ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ سوتے ہیں تو یہ ان کے 10-20 میٹر کے دائرے میں رہتا ہے۔ روس پر حملے کی خبر آنے پر بریف کیس میں الارم بجتا ہے اور فلیش لائٹ روشن ہو جاتی ہے جس سے صدر فوری طور پر بریف کیس کے قریب پہنچ کر وزیر اعظم اور وزیر دفاع سے رابطہ کر سکتے ہیں۔‘

ایسے دو بریف کیس روسی وزیر اعظم اور روسی وزیر دفاع کے پاس ہوتے ہیں لیکن ایٹمی حملے کا حکم صرف صدر ہی دے سکتے ہیں۔

ایسا موقع صرف ایک بار آیا جب روس کے صدر کو یہ بریف کیس کھول کر فعال کرنا پڑا۔

ایگور بتاتے ہیں ’25 جنوری 1995 کو اس بریف کیس کا الارم بجا تھا ،اس کی روشنی چمکنے لگی۔ دوسری وارننگ لائٹ صدر کی میز پر جل رہی تھی۔ اس وقت بورس یلسن صدر تھے۔‘

روسی ریڈارز نے سرحد کے قریب بحیرہ بیرنٹس کے اوپر ایک میزائل دیکھا تھا جو تیزی سے روس کی طرف بڑھ رہا تھا اور وقت کم تھا۔

ایگور بتاتے ہیں ’بورس یلسن نے اپنا بریف کیس آن کر لیا تھا۔ وہ وزیر اعظم اور وزیر دفاع سے مشورہ کر رہے تھے کہ اب کیا کرنا ہے اور اس کے لیے ان کے پاس صرف پانچ سے نو منٹ کا وقت تھا۔‘

تاہم بعد میں پتہ چلا کہ یہ وارننگ الارم غلط تھا۔ یہ دراصل ناروے کا ایک راکٹ تھا جسے سائنسی مشن پر چھوڑا گیا تھا۔ اس راکٹ کو روس کی طرف آنے والا میزائل سمجھ کر حملے کا الارم بجا دیا گیا۔

اگر بورس یلسن اس وقت جوہری میزائل داغنے کا حکم دیتے تو جنگ کی تاریخ میں کئی نئے صفحات جُڑ چکے ہوتے۔

امریکہ کی طرح روسی نظام میں بھی یہ یقینی بنایا گیا ہے کہ اگر صدر ایٹمی حملے کا حکم دیں گے تو حملہ ہو گا۔

پروفیسر پیٹر ہینیسی کتاب ’دی سائلنٹ ڈیپ‘ کے شریک مصنف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ برطانوی فوج کے پاس ٹرائیڈنٹ نیوکلیئر میزائلوں سے لیس چار بہترین آبدوزیں ہیں جن میں سے ایک ہمیشہ بحر اوقیانوس میں تعینات رہتی ہے۔ یہ صرف ایک اشارے پر ایٹمی حملہ کر سکتی ہے۔

پروفیسر پیٹر کا کہنا ہے کہ ’برطانوی نظام میں جوہری میزائلوں کو لانچ کرنے کا حکم صرف وزیر اعظم ہی دے سکتے ہیں۔ ان کے ایک حکم پر رائل نیوی وینگارڈ کلاس آبدوز سے جوہری حملہ کر سکتی ہے۔‘

ٹونگ جاؤ بیجنگ میں کارنیگی چنہوا سینٹر فار گلوبل پالیسی میں فیلو ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ سب خفیہ باتیں ہیں لیکن لوگوں کا خیال ہے کہ چین میں فوج کیا کرے گی، اس کا فیصلہ کمیونسٹ پارٹی کی پولٹ بیورو کی قائمہ کمیٹی کرتی ہے۔ حتمی فیصلہ کمیٹی کا ہوگا یا صدر کا ہو گا یہ کوئی نہیں جانتا۔‘

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی رہنما اس طرح کے حملے کے بارے میں نہیں سوچے گا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا مطلب بڑی تباہی ہو گا۔

ہیروشیما، ناگاساکی پر ایٹمی حملے کے بعد یہ دنیا کئی بار ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچی لیکن آج تک کسی لیڈر نے ایٹمی حملے کا بٹن نہیں دبایا۔

لیکن روسی صدر کے ایٹمی ہتھیاروں کو ہائی الرٹ پر رکھنے کے حکم نے دنیا کو ایک بار پھر ایٹمی جنگ کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے۔

اس دہلیز سے آگے صرف تباہی ہی تباہی ہے اور ایک لیڈر کا ایٹمی بٹن دبانے کا فیصلہ پوری دنیا کو برباد کر سکتا ہے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button