
ویانا مذاکرات میں تہران اور عالمی طاقتوں کے درمیان مضبوط جوہری معاہدے پر زور دیتے ہوئے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا کہ اطمینان بخش معاہدے تک پہنچنے کے لیے سعودی عرب ایران سے ’تفصیلی گفتگو‘ کا ارادہ رکھتا ہے۔
امریکی میگیزین ’دی ایٹلانٹک‘ میں شائع کردہ سعودی سرکاری میڈیا کو دیے گئے ریمارکس میں ان کا کہنا تھا کہ ایران سے براہِ راست مذاکرات ہمیں ’اچھے حالات پر پہنچنے کے قابل کریں گےاور یہ خطے کی سنی اور شعبہ طاقتوں کے روشن مستقبل کےلیے نشاندہی کریں گے‘، جو پورے مشرق وسطیٰ میں دشمنی کے کھیل کو روکے گا۔
سعودی سرکاری میڈیا نے ولی عہدکی گفتگو کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا کہ ’ایران ہمیشہ سے ہمارا پڑوسی ہے، ہم ان سے الگ ہوسکتے ہیں نہ ہی وہ ہم سے الگ ہوسکتے ہیں‘۔
محمد بن سلمان کا یہ تبصرہ اس وقت سامنے آیا جب امریکا اور ایران ویانا میں 2015 کا جوہری معاہدہ بحال کرنے سے متعلق مذاکرات کے اقدام کے قریب پہنچ چکے ہیں، اس معاہدے نے پابندیوں میں نرمی کے بدلے تہران کے جوہری پروگرام کو روک دیا۔
ریاض اور اس کے خلیجی اتحادیوں نے ان کے خدشات سے نمٹنے میں ناکامی کے پیش نظر معاہدے کو ناقص قرار دیا ہے، خلیجی ممالک نے ایران کے بلاسٹک میزائل پروگرام اور یمن میں اس کے خفیہ نیٹ ورک پر خدشات کا اظہار کیا تھا، جہاں سعودی عرب ایک مہنگی جنگ میں الجھا ہوا ہے۔
ولی عہد کا کہنا تھا کہ ’ہم کوئی کمزور جوہری معاہدہ نہیں دیکھنا چاہتے کیونکہ اختتام میں اس کا نتیجہ یکساں ہوگا‘۔
ایران پر مشترکہ خدشات کے پیش نظر ریاض کے خلیجی اتحادیوں بحرین اور متحدہ عرب امارات کو 2020میں اسرائیل سے تعلقات استوار کرتے ہوئے دیکھا گیا تاکہ غیر یقینی حالات میں اہم سیکیورٹی اتحادی امریکا ایک نیا علاقائی محور تشکیل دےسکے۔
شہزادہ محمد بن سلمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر فلسطین سے جنگ ختم ہوجائے تو اسرائیل سعودی عرب کا ’ایک مضبوط اتحادی‘ بن سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم اسرائیل کو بطور دشمن دیکھنے کے بجائےایک مضبوط اتحادی کی طرح تصور کرتے ہیں کیونکہ ہم مل کر مشترکہ مفادات حاصل کرسکتے ہیں، لیکن اس قبل اسےفلسطین کے ساتھ اپنے مسائل حل کرنے چاہیے۔