Column

خونی تماشہ کیوں ؟ ….. ناصر نقوی

ناصر نقوی

دنیا کے سب سے بڑے امن کے ٹھیکے دار امریکہ بہادر کا حکمران خواہ کوئی بھی ہو، پینٹاگان اور خفیہ ادارے سی آئی اے کی موجودگی میں ”خون کی ہولی‘ ‘ میں کمی تو آسکتی ہے اس کا خاتمہ ممکن نہیں، اس لیے کہ اس کے حواریوں کے مفادات اسی بنیاد پر حل ہوتے ہیں۔ اگر بھارت اور امریکہ کی دوستی کا جائزہ لیں تو اس غریب اور غربت کے مارے ملک نے روٹی اور روزگار سے زیادہ جدید اسلحہ کی فکر کی، بہانہ پاکستان دشمنی اور چینی خطرہ ظاہر کیا گیا حالانکہ اسے اپنی ترقی ، خوشحالی اور استحکام کے لیے فکر مند ہونا چاہیے تھا لیکن جواہر لعل نہرو سے مودی جی تک ایسا کچھ نہیں کیا گیا صرف وعدے ، سبز باغ اور دنیا کی بڑی جمہوریت کے نعرے لگائے گئے ۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بڑا ملک ہے، بین الاقوامی سازش کا حصہ بن کر اس نے مملکت خدادادکو دو لخت کرنے کا اعزاز بھی حاصل کیا لیکن اب پاکستان کسی بھی انداز میں بھارت سے کمزور نہیں، دو ایٹمی طاقتیں ٹکرائیں گی تو نقصان ساری دنیا کا ہوگا ، پاکستان کے باصلاحیت سائنس دانوںنے محدود وسائل میں بھی میزائل ٹیکنالوجی میں برتری حاصل کی، اس کی فوج بھی نہ صرف جدید بنیادوں پر تربیت یافتہ ہے بلکہ بہادری اور دلیری میں اپنا ثانی نہیں رکھتی جبکہ بھارتی سورما برسوں سے مایوسی اور بددلی کا شکار ہو کر خود کشی پر مجبور ہیں۔ ایسی صورت حال میں امریکن اسلحے کے ڈھیر کس کام آئیں گے، اس کی لاکھوں کی فوج زیر قبضہ کشمیرکے نہتے کشمیریوں کے مقابلے میں ناکام ہے یہی نہیں جب بھی بھارتیوں نے ”پاکستان اور چین “کے خلاف کوئی ایڈونچر کرکے بین الاقوامی ہمدردی حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی تو اسے ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی۔ حقیقت تو یہی ہے کہ چین بڑا پہلوان ہے اور پاکستان اس کا دوست نہیں بلکہ دنیا کی ساتویں اورامت مسلمہ کی پہلی ایٹمی طاقت ہے ، اب بھارت امریکہ سے جتنا چاہے جدید سامان حرب خریدے پاکستان اور چین کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا لیکن پاکستان دشمنی اور چینی خطرے کی آڑ میں امریکہ بہادر نے اپنی مکاری اور چالاکی سے بھارت سے دفاعی سامان کا بیوپار کر لیا ہے اب اسے چلانے کے لیے مودی جی کو فوجی درآمد کرنے پڑیں گے ان کی فوج اور فوجی محض درشنی ہیںاور یہ بات لداخ اور بالا کوٹ میں ثابت ہو چکی ہے ۔

امریکہ بہادر عراق ، لیبیا، مصر اور افغانستان میں اپنے اتحادیوں کی طاقت سے ”خونی تماشہ “کھیل چکے ، نتیجہ بھی سب کے سامنے ہے کہ جنگ انسانوں کی قتل و غارت گری کے سوا دنیا بلکہ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ ویت نام سے افغانستان تک شکست در شکست تاریخ کے اوراق پر محفوظ ہو چکی ہے۔ امریکی صدرجو بائیڈن نے اقتدار سنبھالتے ہی ”جنگ جنگ“ نہ کھیلنے کا اعلان کرکے صرف اور صرف امریکہ اورامریکیوں کی ترقی و خوشحالی کی خوشخبری دی تھی لیکن تھنک ٹینک پینٹا گون نے یوکرین میں خونی تماشہ کی منصوبہ بندی کر لی۔ بظاہر یہ خون اور آگ کی ہولی روسی صدر پوتن کی ہڈ دھرمی دکھائی دے رہی ہے لیکن حقیقت میں اس ”خونی تماشہ “کے پس منظر میں امریکہ بہادر ہی ہے ۔
ہمیں ہی نہیں دنیا کولمحہ موجود میں اس با ت کا جائزہ لینا ہو گا کہ آخر یوکرین اور روس کا تنازعہ ہے کیا ؟کیونکہ کسی بھی لحاظ سے یوکرین اس قابل نہیں کہ وہ روس جیسی بڑی طاقت سے ٹکرلے سکے، پھر ایسے کونسے حالات و واقعات رونما ہوئے کہ یہ خونی تماشہ ناگزیر ہو گیا، 2014ءمیں بھی روس حملہ کر چکا ،اس وقت روس کے حمایت یافتہ باغیوں نے مشرقی یوکرین کے بڑے علاقے پر قبضہ بھی کر لیا تھا پھر معاہدہ بھی ہوا لیکن باغی ابھی تک یوکرین سے لڑائی میں مصروف ہیں بلکہ روس نے موجودہ حملے سے پہلے باغیوں کے قبضہ شدہ علاقوں کو آزاد علاقے تسلیم کرتے ہوئے وہاں روسی فوج بھیجنے کا حکم دیا ، اگر اس مسئلے کی بنیاد تک پہنچنا ہے تو پہلے دونوں صدور کی شخصیات کا موازنہ کرنا پڑے گا ۔یوکرین کے صدر سابق مزاحیہ اداکار ہیں جبکہ پوتن روسی خفیہ ایجنسی کے سربراہ رہ چکے ہیں لہٰذا انہیں یہ علم تھا کہ امریکہ بہادر، روس اور چین کے لیے یوکرین کو نئی مصیبت بنانا چاہتا ہے لہٰذا نہ صرف اسے جدید اسلحہ سے لیس کیا جا رہا ہے بلکہ اسے نیٹو میں شامل کرکے اتحادی فوج کا وہاں آنا جائز قرار دینا چاہتا ہے، لہٰذا ن حرکات اور منصوبہ بندی کے ردعمل میں روس نے اپنی حکمت عملی بنا کر صف بندی پہلے سے کر لی تاہم اس نے ہمیشہ جنگی اقدام نہ کرنے کا پیغا م دیا پھر جنگ کیوں شروع ہوئی ؟ اور روسی صدر کا مطالبہ کیا ہے ؟
روس کا کہنا ہے کہ یہ جنگ نہیں فوجی آپریشن ہے جس کا مقصد یوکرین کو ہتھیاروں سے پاک اور انہیں نازیوں کے اثرات سے چھٹکارا دلانا ہے ، پوتن کہتے ہیں کہ یوکرینی فوج ہتھیار ڈال دے یا پھر اقتدار پر قبضہ کر لے ۔ صدر یوکرین کا حکم ہے کہ بھر پور انداز میں مقابلہ کیا جائے کوئی مرد ملک سے باہر نہ جائے ، چار کروڑ 40لاکھ آبادی کو بھی ہتھیا رد ے دیے گئے ہیں ملک کا نظام فوج کے حوالے کر دیا گیا جنگ جاری ہے اور دونوں جانب سے مذاکرات کی خواہش بھی ہے تاکہ بے گناہوں کی مارو ماری ختم ہو سکے لیکن امریکہ بہادراور اسرائیل نے یوکرین کی فوجی مدد سے انکار کردیاہے لہٰذا مایوسی میں کسی وقت بھی مذاکرات سے جنگ بندی ہو سکتی ہے پھر بھی امریکہ و برطانیہ میں روسی بینکوں کے اثاثے منجمد کر دیئے گئے ہیں صدر میکرون نے پوتن سے جنگ بندی پر زور دیا ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک نے ہتھیار بطور پابندیاں بھی لگا دی ہیں لیکن عراق میں امریکی دعویٰ کی طرح یوکرین میں روسی صدر کا ہتھیاروں کا دعوی ہرگز غلط نہیں۔
یوکرین کی جانب سے پانچ روسی طیارے اور ایک ہیلی کاپڑ گرانے کا دعویٰ روز اول سے ہی سامنے آچکا ہے ،جس کا مطلب ہے کہ مغرب کے دیے گئے جدید ہتھیاران کے پاس موجودہیں موجودہ حالات میں بھی امریکہ اور یورپی ممالک نے طیارہ و ٹینک شکن میزائلوں سمیت جنگی ساز و سامان یوکرین کو دینے کی یقین دہانی کرائی ہے تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ بہادر نے سب سے پہلے یوکرینی صدر کوملک سے نکلنے کی سہولت فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی جسے انہوں نے ٹھکرا کر طیارہ اور ٹینک شکن میزائل مانگے تھے ۔ روسی صد ر کا دعویٰ ہے کہ وہ یوکرین کو فتح نہیں صرف سبق سکھانا چاہتے ہیںلیکن روسی صدر کی یہ دھمکی کامیاب رہی ہے کہ اگر کسی ملک نے اس مسئلے میں کودنے کی کوشش کی تو وہ نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہوجائے ۔ یہ ماضی کے ایک واقعے کا ایکشن ری پلے ہے، جس میں امریکہ بہادر نے کیوبا میں روسی میزائل کی تنصیب پر دھمکی دی تھی تو روس نے اپنا پروگرام ملتوی کر دیا تھا اب روس کی دھمکی پر امریکہ اور نیٹوفورسز یوکرین کی زمینی مدد سے دور بھاگ گئے ہیں کیونکہ ابھی تک امریکہ بہادر خواہش کے باوجود یوکرین کو نیٹو میں شامل نہیں کراسکے، اب صرف پابندیوں کا سہارا لیا جائے گا جس کا نقصان سب کو ہوگا لیکن یہ لڑائی ایک حد تک دو نظاموں کی بھی ہے، سرمایہ دارنہ نظام امریکہ کامن پسند ہے جبکہ نیٹو فورسز سے اس کے تحفظ کی لڑائی لڑی جا رہی ہے ۔ موجودہ صورت حال میںسپر پاور امریکہ کی عالمی بالادستی کو خاک میں ملانے کے لیے چین اور روس ایک ہیں اسی لیے امریکہ بہادر اپنی منصوبہ بندی کی ناکامی پر بھی کان لپیٹ کر وقت گزارنا چاہتے ہیں ، اقوام متحدہ نے بھی اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی جو روس کے ویٹو سے ناکام ہو گئی ،اب امریکہ ، یورپ اور دنیا روس کو باز نہیں کر سکتی وہ جو بھی کرے گا اپنی مرضی سے کرے گا لیکن امریکہ بہادر راستے میں مغربی حواریوں کی مدد سے اقتصادی و معاشی پابندیوں سے روس کو مشکلات میں ڈالیں گے تاہم اس کارروائی سے بھی اثرات سب کو برداشت کرنا ہونگے ۔امریکہ بہادر کا خواب تھا کہ یوکرین کو مضبوط کرکے سی پیک میںرخنہ انداز ی کی جائے لیکن یہ خواب بھی اس جنگ نے بکھیر دیا ہے ۔
امریکہ اور روس کی جارحیت کا موازنہ کریں تو دونوں کی حکمت عملی میں تضاد ہے۔ امریکی جن اسلامی ممالک پرچڑھ دوڑے وہاں کی تمام تر اطلاعات مفروضوں پر مبنی تھیں اس نے جہاں بھی مداخلت کی وہاں فوجی اور شہری آبادی کو بے دریغ ملیا میٹ کیا اور اسے اپنے اس غیر اخلاقی، غیر قانونی اور غیر روایتی رویوں پر بالکل شرمندگی نہیں ہوئی جبکہ روسی انداز اس سے مختلف ہے شہری آبادیاں نشانہ بنی ہیں لیکن روسی کارروائی کسی حد تک محتاط ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنی سلامتی کا حق ہی نہیں رکھتے بلکہ روسی خطرات کو کم کرنے کے لیے یوکرین میں کم از کم پر مداخلت کے خواہشمند ہیں ۔ ماضی کی جنگوں نے نسل انسانی کی فلاح کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ مسائل اور مشکلات میں اضافہ کیا لہٰذا دنیا کے ذمہ داروں کو ہر صورت میں ایسی جارحیت کے اندیشوں کا خاتمہ کرنے کے لیے ”خونی تماشے “کے امکانات ختم کرنا ہوں گے تاکہ بے گناہ انسانوں کا خون ناحق دنیا کے کسی کونے میں بھی نہ بہہ سکے یقیناً امن کے ٹھیکیداروں اور عالمی تنظیموں کے لیے یہ وقت کا بڑا چیلنج ہے ۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button