تازہ ترینخبریںپاکستان

کیا پاکستان امریکی اثر و رسوخ سے نکل رہا ہے اور چین اور روس کے قریب ہو رہا ہے؟

پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں یوکرین سے روسی افواج کے فوری انخلا کا مطالبہ کرنے والی قرارداد پر جاری بحث میں اپنی باری پر حصہ نہیں لیا۔

ذراع ابلاغ  کے مطابق اجلاس میں بھارت کے ووٹ دینے سے گریز سے متعلق سوال پر امریکی محکمہ خارجہ نے صحافیوں پر زور دیا کہ وہ انفرادی طور پر مخصوص ممالک پر توجہ مرکوز نہ دیں۔

یاد رہے کہ جمعہ کو بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روسی حملے کی مذمت کی قرارداد پر ووٹ نہیں دیا تھا۔

2 روز بعد جب سلامتی کونسل نے کشیدگی پر بحث کے لیے 193 رکنی جنرل اسمبلی کا خصوصی ہنگامی خصوصی اجلاس بلانے کے لیے ووٹنگ کی تو بھارت نے اس میں بھی حصہ نہیں لیا۔

اس سلسلے میں جمعرات کو امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اپنے بھارتی ہم منصب کو ٹیلی فون کر کے ان پر زور دیا تھا کہ وہ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر امریکی کوششوں کی حمایت کریں۔

پاکستان، جو اس معاملے پر کسی کی سائیڈ نہ لینے کی کوشش کررہا ہے وہ دونوں اجلاسوں میں شریک نہیں ہوا۔

اقوام متحدہ کے رکن کے طور پر پاکستان جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مسلسل دوسرے روز جاری رہنے والے مباحثے میں حصہ لے سکتا ہے لیکن اب تک ایسا کرنے سے گریز کررہا ہے۔

بظاہر یہ نظر آرہا ہے کہ پاکستان اس تنازع میں الجھنے سے گریز کرنا چاہتا ہے جو اسے ایک غیر آرام دہ پوزیشن میں ڈال سکتا ہے۔

پاکستان امریکا کا روایتی اتحادی ہے جس نے ماضی میں واشنگٹن کو چین تک رسائی کے لیے راہداری فراہم کی تھی۔

تاہم دونوں ممالک کے درمیان تعلقات حال ہی میں کشیدہ ہوئے ہیں کیونکہ امریکا بھارت کے زیادہ قریب ہوگیا ہے، جس کا چین پر قابو پانے کے لیے امریکی کوششوں میں اب کلیدی کردار ہے۔

چین، پاکستان کا سب سے قریبی اتحادی ہے جو اقوام متحدہ اور ایف اے ٹی ایف جیسے مختلف بین الاقوامی فورمز پر اہم معاملات میں اسلام آباد کی حمایت کرتا ہے۔

واشنگٹن میں موجود سفارتی مبصرین کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ ہفتے وزیراعظم عمران خان کا دورہ روس طے کرنے میں چین نے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان بتدریج امریکی اثر و رسوخ سے باہر نکل رہا ہے اور چین اور روس دونوں کے قریب ہو رہا ہے تاہم اسلام آباد اس دعوے کی تردید کرتا ہے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ چین اور امریکا دونوں کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے اور بظاہر اسی لیے وہ یوکرین کے تنازع میں نہیں پڑنا چاہتا۔

متحدہ عرب امارات نے بھی دونوں مواقع پر ووٹنگ میں حصہ لینے سے پرہیز کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button