Column

آل اِز ویل ….. ناصر نقوی

ناصر نقوی
ملکی سیاسی صورتحال انتہائی دلچسپ دور سے گزر رہی ہے۔ متحدہ اپوزیشن ، پاکستان پیپلز پارٹی ، جماعت اسلامی اور اے این پی کا دعویٰ ہے کہ موجودہ حکومت سال 2018کے الیکشن کی منتخب ہر گز نہیں تھی ، یہ سیلکشن کے باعث اقتدار میں آئی، نا تجربہ کاری اور ناقص حکمت عملی میں اس کا حقیقی چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے ، ہر سطح او رہر شعبہ میں ناکامی مقدر بنا ، ہم نے روز اول سے نشاندہی کی ، مخالفت کی، تنقید کا نشانہ بھی بنایا کہ خان اعظم کا اقتدار ملک و ملت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا لیکن ان کے ضمانتی مضبوط اور طاقت ور تھے اس لیے نہ صرف اپوزیشن کی سنی نہیںگئی بلکہ اس کے خلاف سازشوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا جس بنا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا جبکہ منفی اثرات سب کے سامنے ہیں۔ بے جا قرضوں نے قوم کے گلے میں عالمی اداروں کی غلامی کا طوق ڈال دیا اور مہنگائی کے جن نے غریب و ملازمت پیشہ متوسط طبقے کی کمر توڑ دی ہے ،تحریک انصاف اور وزیر اعظم اپنا انتخابی منشوربھول گئے جس میں ایک کروڑ ملازمتوں اور پچاس لاکھ گھروں کا سنہرا خواب دکھایا گیا تھا سب نے دیکھا کہ پونے چار سالہ دور اقتدار میں نوکریاں چھینی گئیں اور گھر ڈھائے گئے لہٰذا حالات اس حد تک بگڑے ہیں کہ حکومتی اتحادیوں کی یقین دہانیوں کے باوجود تحفظات دور نہیں کئے جا سکے۔ اپوزیشن تو اپوزیشن ہوتی ہے جو کسی حال میں خوش نہیں ہوتی، اپنے اتحادی مسلم لیگ (ق) ، ایم کیو ایم اور پیر پگاڑا کا اتحاد بھی موقعہ ملتے ہی طنز و تنقید کے نشتر چلانے سے باز نہیں آیا۔ اتحادیوںکو حکومت سے سب سے بڑا شکوہ غیر منتخب مشیروں اور ترجمانوں کا تھا لیکن خان اعظم نے حقیقت میں اپنوں کی بجائے غیروں پر اعتماد کیا یہ الگ بات ہے کہ یہ مہمان مشیراور ترجمان اپنی اپنی بولی بول کر اپنے حصے کا رزق کھا کر چلتے بنے، لیکن یہ کمی ہر بار درآمد شدگان سے پوری کر لی گئی ایک وقت تھا عبدالحفیظ شیخ اورظفر مرزا ”تبدیلی سرکار “ کے پیارے تھے پھر سب نے دیکھا کہ شہزاد اکبر مرزا کس طرح آئے ، گرجے ، برسے، عوام میں تاثر پایا گیا کہ یہ شخص برطانوی حکومت سے معاملات طے کرکے شریف برادران کی کرپشن ، لوٹ ماراور منی لانڈرنگ کا حل نکال لے گا بلکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو بھی قانونی رسیوں میں باندھ کر قوم کے سامنے پیش کرے گا کیونکہ وہ ہر پریس کانفرنس میں شواہد کے کاغذ لہرا کر یقین دہانی کراتے تھے لیکن جب وہ زیادہ بھڑکے اور اوچھل کود کرتے دکھائی دئیے تو چراغ کی آخری ”لو“کی طرح بجھ گئے اب کوئی نہیں جانتا کہ وہ کدھر سے آیا کدھر گیا ؟
حضرت زبردستی کے صدر پرویز مشرف کے دور میں دریافت ہوئے تھے لہٰذا کھلاڑیوں کے دور میں بہت سے دوسروں کی طرح ان کی بھی لاٹری نکل آئی کیونکہ اگر موجودہ کابینہ ، مشیران اور ترجمانوں کا جائزہ لیا جائے تو اکثریت پرویز مشرف کے چہیتوں کی ملے گی ، اپوزیشن اس وقت خان اعظم کی حکومت کو ناکام قراردے کر گھر بھجوانے کی فکر میں ہے، متحدہ اپوزیشن ہی نہیں، سابق مفاہمتی صدر آصف علی زرداری اس کار خیر میں بھرپور انداز میں شامل ہیں۔ ماضی کے ناراض سیاسی دوستوں نے گلے شکوے کے بعد ایک دوسرے سے وفاداری کا عہد بھی کرلیا پھر بھی وزیر اعظم مطمئن ہیںاور ان کا ترجمانوں کے اجلاس میں کہنا تھا کہ پہلے میں کابینہ ارکان کو کہتا تھا کہ گھبرانا نہیں ، حالات خواہ کچھ بھی ہوں لیکن اب اپوزیشن کو یہ پیغام دے رہاہوں ”گھبرانا نہیں “۔۔۔ ان سے جو ہوتا ہے کر لیں ہم نے بھی ہر صورت حال سے نمٹنے کے لیے کمر کس لی ہے ۔ انہوں نے ترجمانوں کو ہدایت کی کہ وہ ”ٹاک شوز“میں وزراءکی طرح حکومتی پالیسیوں کا بھرپورد فاع کریںکچھ بھی ایسا ہی کریں کچھ نیا نہیں ہونے والا اتحادی ساتھ تھے اور ساتھ رہیں گے ”آل از ویل “۔
تبدیلی سرکار اپنے اہداف پورے نہیں کر سکی منشور پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا ، عوامی سہولیا ت کی بجائے مہنگائی نے لوگوں کا جیناحرام کر دیا قومی خزانہ خالی تھا اور خالی ہی رہا لیکن معاملات قرضوں سے انکار کے باوجود ماضی کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ گئے پھر بھی وزیر داخلہ اور دیگر اہم وزرا ءکا دعویٰ ہے کہ اپوزیشن 2018سے اب تک ناکام ہے اور آئندہ بھی ناکام رہے گی۔ لانگ مارچ اور ”عدم اعتماد “ ڈرامے سے زیادہ کچھ نہیں،ایک سال الیکشن میں رہ گیا لہٰذا اپوزیشن اپنی ساکھ کی بحالی کے لیے سب کچھ کر رہی ہے ۔ وہ عمران خان کے دوست اور سیاستدان ہیں، سیاستدان کے دروازے کبھی کسی کے لیے بند نہیں ہوتے، ویسے بھی اپوزیشن کی سوچ ابھی تک یکسوئی نہیں رکھتی، کبھی وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ پنجاب اور سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف عدم اعتماد لانے کی بات کرتی ہے کبھی صدر عارف علوی کے مواخذے کی۔ اس کا مطلب ہے کہ وزیراعظم بالکل درست کہتے ہیں کہ ”آل از ویل “۔۔۔ فی الحال سب اچھا ہے جب کچھ ہوگا تو دیکھا جائے گا پھر بھی میرا خیال ہے کہ اپوزیشن اسلام آباد نہیں آئے گی جبکہ مبصرین کا اندازہ ہے کہ حالات بدل چکے ہیں اپوزیشن کے رابطے بتا رہے ہیں کہ اب آخری معرکہ آرائی ہو گی۔ اسلام آباد تک نہ آنا صرف ایک صورت میں ہی ممکن ہے کہ پنجاب یا وفاق میں عدم اعتماد پہلے ہو جائے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت دونوں جانب سے کچھ زیادہ ہی بااعتماد رویوں کا اظہار کیا جا رہا ہے پھر بھی ایمپائر کی وہی انگلی انتہائی اہم ہوگی جس کا کبھی کنٹینر پر کھڑے عمران خان کوانتظار تھا ا س لیے کہ موجودہ نازک حالا ت میں کسی بھی طرح ایمپائر غیر جانبدار نہیں رہ سکتے ، لہٰذا ”آل از ویل “ کہنا اس قدر آسان نہیں جس طرح وزیر اعظم نے کہہ دیا اور وزیر داخلہ شیخ رشید نے اس پر مہر ثبت کر نے کی کوشش کی۔
اقتدار کے تخت تک پہنچنے کے لیے بہت سی منازل طے کرنی پڑتی ہیں لیکن تخت کا تختہ بنتے ہر گز دیر نہیں لگتی ، یہ مشکل کام اکثر اشاروں ہی اشارے میں انجام پا جاتا ہے اور دنیا تکتی رہ جاتی ہے۔ ویسے بھی سیاست میں کوئی چیز حتمی نہیں ہوتی اس کے رنگ بھی ”گرگٹ “ کی طرح بدلتے ہیں ۔ آئندہ سال الیکشن کا ہے لہٰذا سیاسی پرندوں کی اڑان کسی وقت بھی ممکن ہو سکتی ہے۔ اپوزیشن 24سے 30تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی سے رابطوں کی خبر دے رہی ہے۔ اتحادی بھی اوپن رابطوں میں ہیں پھر بھی ”آل از ویل“کہنا بڑی ہمت اور سیاسی چال سے زیادہ کچھ نہیں۔ عمران خان ہمیشہ پر اعتماد انداز میں مد مقابل کو ٹف ٹائم دینے کے عادی ہیں۔ آل از ویل کے بیان میں یہی راز پوشیدہ ہے ورنہ سب جانتے ہیں کہ مہنگائی بے روزگاری اور بیڈ گورننس کے گلے شکوے کے ساتھ سب اچھا نہیں ہوسکتا ۔
ہم اور آپ یقیناً جمہوریت پسند ہیں ہمیں یہی سبق پڑھایا گیا ہے کہ لنگڑی لولی جمہوریت آمریت سے بہتر ہوتی ہے لہٰذا ہم اور آپ خواہش رکھتے ہیں کہ ہر منتخب حکومت آئینی مدت پانچ سال مکمل کرے تا کہ جمہوریت کو استحکام ملے اور ہمارے ہاں بھی پارلیمنٹ و قومی اداروں کی بالادستی قائم ہو لیکن ہر منتخب حکومت اقتدار کے تخت پر بیٹھتے ہی اپنے نعرے وعدے اور انتخابی منشور کو بھول جاتی ہے۔ ایسے میں اپوزیشن جمہور کی آواز بنتے ہوئے بھولی بسری یادوں کے سہارے سیاست کرنے کی کوشش کرتی ہے تو حکومت اسے اپنی راہ میں رکاوٹ سمجھ لیتی ہے ایسے میں حکومتی نادان دوست عجیب و غریب مشوروں سے معاملات سلجھانے کی بجائے مزید الجھا دیتے ہیں۔ اپوزیشن اس واردات سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہے تو معاملات مزید بگڑ جاتے ہیں۔ ماضی کے حوالوں سے عمران خان خوش قسمت ہیں کہ انہیں ڈھیلی ڈھالی اپوزیشن ملی لیکن یہ غلط فہمی ہے کہ اپوزیشن حکومت کا باقی ماندہ وقت بھی مصلحت پسندی میں گزار دے گی کیونکہ اسے بھی زندہ رہنا ہے اور آئندہ الیکشن کی تیاری کرنی ہے لہٰذا آنے والے دنوں میں دما دم مست قلندر ہوگا ، اور یہ اپوزیشن کا جمہوری حق ہی نہیں بلکہ جمہوریت کا حقیقی حسن ہے ۔ اس لیے اقتدار کے آخری لمحات تک آل از ویل یا سب اچھا کہنا کبھی بھی درست نہیں ہوتا، کیونکہ سیاست میں ہلچل کسی وقت بھی پیدا ہونے کے چانس ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button