Column

رانا ثنا اللہ کا اعتراف ….. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی
چلئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما راناثنا اللہ نے یہ تو تسلیم کر لیا ہے اب اشارے اور ٹیلی فون آنا بند ہوگئے ہیںورنہ تو مقتدر حلقوں پر تنقید اپوزیشن نے معمول بنا لیا تھا۔ رانا ثناءاللہ کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کا فیصلہ نواز شریف کریں گے جس کا مطلب نواز شریف بدستور مسند حکومت قابو میں رکھنے کے خواہش مند ہیں۔شریف برادران اس بات سے بھی خائف ہیں کہ اگر پنجاب کی وزارت اعلیٰ گجرات کے چودھریوں کو مل گئی تو صوبے میں ان کی سیاست کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی ایک عرصہ سے حکومت گرانے کی جدوجہد میں لگے ہیںجس میں ابھی تک انہیں خاطر خواہ کامیابی نہیں ہو سکی ۔ بلاول بھٹو زرداری کا دعویٰ تھا کہ پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ میں لاکھوں افراد شرکت کریں گے۔ پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کے آغاز میں شرکاءکی تعداد سے اس امر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عوام پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ میں شرکت سے قاصر ہے۔ تعجب تو اس بات پر ہے کہ اپوزیشن عدم اعتماد کی کامیابی پر پُر امید ہونے کے باوجود حتمی تاریخ دینے سے گریزاں ہے جو امر کا غماز ہے کہ اپوزیشن کے پاس عدم اعتماد لانے کے لیے مطلوبہ تعداد کی کمی ہے وگرنہ وہ عدم اعتماد لانے میں دیر نہ کرتے۔
حکومت کی حلیف جماعتوں سے عدم اعتماد میں تعاون کی یقین دہانی نہ ہونے کے بعد اپوزیشن کو وزیراعظم عمران خان کے قریبی دوست جہانگیر ترین گروپ سے امیدیں وابستہ تھیںلیکن جہانگیر ترین کے علاج معالجہ کے لیے بیرون ملک جانے کے بعد وہ امید بھی ختم ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نئے انتخابات کی حامی ہے تو پیپلزپارٹی پہلے پنجاب میں عدم اعتماد لانے کی خواہش مند ہے۔ شریف برادران پنجاب کی وزارت اعلیٰ کسی دوسری جماعت کو دینے کے حق میں نہیں ۔ آصف علی زرداری بڑے زیرک سیاست دان ہیں ۔پنجا ب میں تحریک عدم اعتماد میں ناکامی کی صورت میں وفاق میں عدم اعتماد کی کامیابی کو کوئی امکان نہیں رہے گا۔ اور پھر پیپلزپارٹی سندھ میں اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے۔ بات وہی سید خورشید شاہ والی ہے، جو انہوں نے ایک ماہ پہلے کہی تھی کہ پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کا مقصد عوام کو متحرک کرنے کے سوا اور نہیں۔ مفاد پرستی کی انتہا ہو گئی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلنے والے گلدستے بھیج کر ایک دوسرے کی عیادت کر رہے ہیں۔ درحقیقت ملکی سیاست ذاتی مفاد اور اقتدار کے گرد گھومتی ہے۔ سیاست دانوں کو نہ تو عوام کے مسائل سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی ملک پر منڈلاتے خطرات سے کوئی غرض ہے، انہیں صرف اپنے اقتدار سے لگاﺅ ہے۔ سیاست دانوں کے آئے روز کے بدلتے بیانات سے عوام کا سیاست دانوں پر اعتماد اٹھ گیا ہے۔پیپلز پارٹی کے سنیئر رہنما اعتزاز احسن کا چند روز پہلے بیان تھا کہ عدم اعتماد کامیابی سے ہمکنار ہو گی لیکن تازہ ترین بیان میں ان کا کہنا ہے عدم اعتماد میں اپوزیشن کو مشکلات کا سامنا ہے تو اب عوام کسی کی بات پر یقین کریں۔
اپوزیشن کے بیانات سے تو لگتا ہے کہ حکومت آج گئی کہ کل گئی۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کا شور وغوغا اخبارات اور ٹی وی چینلز تک محدود ہے جب کہ وہ عملی طور پر کچھ کر گزرنے کی پوزیشن میں نہیںشاید اسی لیے میاں شہباز شریف عدم اعتماد کی حتمی تاریخ بتانے سے گریزاں ہیں البتہ رانا ثنا اللہ کے بیان سے عدم اعتماد لانے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔دیکھا جائے تو اپوزیشن کا لانگ مارچ اور عدم اعتماد کا شوشہ بے وقت کی راگنی کے سوا کچھ نہیں۔ گذشتہ کئی ماہ سے لانگ مارچ اور عدم اعتماد کو موخر کرنا اپوزیشن کو عوام کی تائید حاصل نہیں اور نہ ہی عدم اعتماد لانے کے لیے انہیں اکثریت حاصل ہے۔ توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ حکومتی جماعت کے کسی رکن کا عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دینے سے فلور کرا سنگ کے خطرات کو رد نہیں کیا جا سکتا ۔ ایسے اراکین اسمبلی کے خلاف الیکشن کمیشن کارروائی کر سکتا ہے۔اس مقصد کے لیے پارٹی سربراہ ایسے رکن کے خلاف نااہلی کا ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیج سکتا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگاکہ چند ہفتے قبل سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی کا بیان تھا کہ جب بیساکھیاں ہٹ جائیں گئی تو عدم اعتماد کامیاب ہو جائے گی۔ اب انہی کی جماعت کے سنیئر رہنما رانا ثنااللہ نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ اشارے اور فون آنا بند ہو گئے ہیں جس کے بعد اپوزیشن کی عدم اعتماد لانے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی لانگ مارچ کرکے دیکھ لیں۔لانگ مارچ سے کبھی کوئی حکومت نہیں گئی بلکہ لانگ مارچ میں اپوزیشن جماعتوں کی حقیقت آشکار ہو جائے گی کہ انہیں عوام کی کس حد تک تائید حاصل ہے۔ وزیراعظم عمران خان اتنے بھی نابلد نہیں اور وہ بھی حلیف جماعتوں اور اپنے اراکین سے رابطے میں ہیں۔ وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید کا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم عمران خان سے استعفےٰ لینا اپوزیشن کے بس کی بات نہیں۔ پیپلز پارٹی نے لانگ مارچ کا آغاز کر دیا ہے جبکہ پی ڈی ایم کا لانگ مارچ بھی ہونے والا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم میں سے کس کے لانگ مارچ کو عوامی تائید حاصل ہو تی ہے۔ پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کے آغاز سے تو پتا چلتا ہے کہ اسلام آباد پہنچنے تک لانگ مارچ کے شرکاءکی تعداد میں تبدریج کمی ہوتی جائے گی۔ پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کے آغاز اور اپوزیشن کے عدم اعتماد لانے کی خبروں سے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ اپوزیشن کو دونوں صورتوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ اپوزیشن کے لیے اب تو میدان خالی ہے، اِنہیں مقتدر حلقوں سے بھی کوئی خدشہ نہیں بلکہ وہ مکمل آزادی سے حکومت کے خلاف عدم اعتماد لا سکتے ہیں۔مسلم لیگ (ن) کے رہنمارانا ثنا اللہ اعترافی بیان دے کر پھنس گئے ہیںوگرنہ عدم اعتماد کی ناکامی کی صورت میں وہ کہہ سکتے تھے کہ ان دیکھی قوتوں نے عدم اعتماد کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔بہرکیف ماہ رواں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان رسہ کشی کا مہینہ ہے۔دیکھتے ہیں کون کامیاب اور کون ناکام ہوتاہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button