Column

پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ ….. روشن لعل

روشن لعل
پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ 27 فروری کو کراچی سے شروع ہو کر دس دن تک صوبہ سندھ اور صوبہ پنجاب کے اہم ترین شہروں میں پڑاﺅ کرتے ہوئے 8 مارچ کو اسلام آباد میں اپنا سب سے بڑا شو کرے گا۔ پیپلز پارٹی کے اس لانگ مارچ کے کیا نتائج برآمد ہوں گے اس کے متعلق مارچ کی تیاریوں کے دوران کوئی واضح دعویٰ سامنے نہیں آسکا ۔ یہ لانگ مارچ ، صاف ظاہر ہے کہ عمران حکومت کی ان پالیسیوں کے خلاف ہے جنہیں پیپلز پارٹی عوام مفاد کے منافی قرار دیتی ہے۔ صرف پیپلز پارٹی ہی نہیں بلکہ تمام اپوزیشن جماعتیں انہی پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتی ہیں مگر حکومت کے خلاف لانگ مارچ کرنے میں پہل صرف پیپلز پارٹی نے کی ہے۔ یہ بات کیسے فراموش کی جاسکتی ہے کہ جو لانگ مارچ اس وقت پیپلز پارٹی اکیلے کر رہی ہے اس کا پروگرام پی ڈی ایم نے اس وقت بنایا تھا جب پیپلز پارٹی بھی اس اتحاد کا حصہ تھی۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) پیپلز پارٹی سمیت ملک کی تمام بڑی اپوزیشن پارٹیوںنے مل کر20 ستمبر2020 کو اس وقت بنایا تھا جب لاہور میںآل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ پی ڈی ایم کے اس تاسیسی اجلاس میں 26 نکات پر مشتمل آئندہ کا لائحہ عمل پیش کیا گیا۔
پی ڈی ایم کے اولین اجلاس کا سب سے بڑا اعلان وزیر اعظم عمران خان سے استعفے کا مطالبہ تھا۔عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو ان کے خلاف باقاعدہ تحریک کا آغاز کیا جائے گا اور اس تحریک کے دوران ان کا استعفیٰ نہ آنے کی صورت میں جنوری 2021 میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا جائے گا۔ پی ڈی ایم کے مذکورہ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا تھا کہ ان کا پہلا احتجاجی جلسہ 11اکتوبر کو کوئٹہ میں منعقد ہوگا ۔ مگر بعدازاں اس فیصلے کے مطابق عملدرآمد نہ ہو سکا۔ کو ئٹہ کا جلسہ ملتوی ہونے کے بعد کسی حد تک عام لوگوں اور خصوصاً میڈیا پر یہ بحث شروع ہوئی تھی کہ اپنے پہلے ہی جلسہ کو طے شدہ پروگرام کے مطابق منعقد نہ کرنے والی اپوزیشن جماعتیں کیسے عمران خان کا استعفیٰ لینے جیسے مقصد میں کامیاب ہو پائیں گی یوں اپنا اعلان کردہ پہلا ہی جلسہ طے شدہ شیڈول کے مطابق منعقد نہ کر سکنے والی پی ڈی ایم کا آئندہ کردار بھی غیر منظم ہی نظر آیا۔ جنوری 2021 کے بعد جنوری 2022 بھی گزر گیا مگر پی ڈی ایم عمران خان کے خلاف لانگ مارچ نہ کر سکی ۔ اس دوران مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی اور مولانا فضل الرحمٰن نے پیپلز پارٹی کے ہی پی ڈی ایم سے اخراج کا سامان پیدا کر دیا جس کی بلائی ہوئی آل پارٹیز کانفرنس سے یہ برآمد ہوئی تھی۔ جب پی ڈی ایم بنائی گئی اس وقت میاں نوازشریف نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا ہدف محض عمران خان کی حکومت نہیں بلکہ اسے لانے والے ہیں۔ یہ کام اسی وقت ہونا ممکن ہوتاجب پی ڈی ایم زیادہ سے زیادہ مضبوط ہوتی ۔ پی ڈی ایم کی مضبوطی ہی ایک طرح سے عمران خان کی حکومت کی کمزوری ثابت ہوسکتی تھی۔ عمران خان اور اس کے لانے والوں کے خلاف جنگ کا اعلان کرنے والوں نے پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم سے نکال کر عمران خان کی بجائے اپوزیشن اتحاد کو ہی کمزور کردیا۔ پیپلز پارٹی کو یہ کہتے ہوئے پی ڈی ایم سے نکالا گیا تھا کہ عمران خان کو حکومت سے نکالنے کے لیے اسمبلیوں سے استعفے دینا ضروری ہے مگر پیپلز پارٹی اسمبلیوں سے استعفوں کی بجائے عمران کے خلاف عدم اعتماد لانا چاہتی ہے۔ بعد میں دیکھا گیا کہ جو لوگ عمران خان کے خلاف اسمبلیوں سے استعفوں کی بات کرتے تھے وہ اس کے خلاف ایک لانگ مارچ بھی نہ کرسکے ۔ اس دوران اگر عمران خان کے خلاف کے خلاف عملی طور پر کچھ ہوا تو پیپلز پارٹی نے تن تنہا کیا۔پاکستان کی حالیہ سیاست کے اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پیپلز پارٹی اور اس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے نہ صرف عوامی اجتماعات منعقد کر کے بلکہ پارلیمنٹ کا فورم استعمال کرتے ہوئے بھی عمران خان کی پالیسیوں کو شدید ترین تنقید کا نشانہ بنایا۔بلاول اور پیپلز پارٹی کی ان سرگرمیوں کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ آخر کار اس پی ڈی ایم کو بھی پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کی حمایت کرنا پڑی جس کے لوگوں نے قبل ازیں عمران خان سے زیادہ بلاول کے خلاف بولنا شروع کردیا تھا۔
پیپلز پارٹی کے جس لانگ مارچ کی حمایت پی ڈی ایم کر چکی ہے اس کے متعلق یہ باتیں بھی سننے میں آرہی ہیں کہ جن عوامی مسائل کو بنیاد بنا کر لانگ مارچ کا اہتمام کیا گیا ہے ان کا مکمل حل نہ تو عمران خان اور نہ ہی کسی اور کے پاس ہے ۔ گو کہ اس طرح کی باتیں بہت زیادہ مایوسی پھیلانے کا باعث بن رہی ہیں مگر یہ ایسی نہیں ہیں جنہیںیکسر نظر انداز کر دیا جائے ۔یہ باتیں زیادہ تر وہ لوگ پھیلا رہے ہیں جنہوں نے عمران خان کوکوئی دیوتا نما شے سمجھ کر اس سے ایسی امیدیں وابستہ کر لی تھیں کہ وہ پاکستان کو محض چند دنوں میں دنیا کے ترقی یافتہ ترین ملکوں کی صف میں لا کھڑا کرے گا۔ عمران خان کے دور حکومت میں یہ ملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہونے کی بجائے ایسے مقام پر تصور کیا جارہا ہے جہاں سے ہر راستہ پسماندہ ترین ملکوں کی فہرست کی طرف جاتاہے۔
ملک کو اس مقام پر دیکھ کر عوام کی ایک بہت بڑی تعداد فکری جمود کا شکار ہو کر یہ قیاس کرنے لگی ہے کہ شاید اب بہتری کا کوئی امکان باقی نہیں رہا ۔ اس طرح کی سوچ کے حامل لوگ اپنے فکری جمود کی وجہ سے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ پیپلز پارٹی بھی ملک کو مسائل کے اس بھنور سے نہیں نکال سکتی جہاں اسے پھنسا دیاگیا ہے۔ اس ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا تو کبھی بھی ممکن نہیں تھا بلکہ ایسے دعوے کرنا عوام کو ہی نہیں بلکہ خود کو بھی دھوکہ دینے کے مترادف ہے مگر کیا کیا جائے یہاں اس طرح کی دھوکہ دہی کی وارداتیں ایک سے زیادہ مرتبہ ہو چکی ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ عوام خود بھی ناممکن خوشحالی لانے جیسے دھوکے کھانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اس ملک میں بے مثال خوشحالی برپا کرنا کسی طرح بھی ممکن نہیں مگر اسے مزید بدحالی کی طرف جانے سے روکنا ہر گز ناممکن قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بدحالی کا سفر روک کر بہتری کی طرف یو ٹرن لینا صرف سیاسی عمل کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے ۔ اس طرح کا سیاسی عمل شروع ہونا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک عوام مایوسی اور جمود کی کیفیت سے باہر نہیں نکلتے ۔ پیپلز پارٹی کا یہ لانگ مارچ چاہے کچھ اور کرے یا نہ کرے لیکن اگر یہ صرف عوام کو مایوسی اور ناامیدی کے حصار سے باہر نکالنے کا باعث بن جائے تو یہی اس کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button