تازہ ترینحالات حاضرہخبریںروس یوکرین تنازع

یوکرین مغرب پر تکیہ کرنے اور آزاد پالیسیاں نہ اپنانے کا خمیازہ بھگت رہا ہے

روس اور یوکرین کے درمیان جنگ دوسرے روز بھی پوری شدت کے ساتھ جاری ہے. اس درمیان اطلاعات ہیں کہ روسی جنگی طیاروں نے یوکرین کے دارالحکومت کیف سمیت مختلف شہروں پر جمعہ کی صبح سے دوبارہ بمباری شروع کر دی ہے جبکہ روسی فوج کیف کے قریب پہنچ گئی ہے۔

نیٹو کی اشتعال انگیزی کے باعث شروع ہونے والی روس اور یوکرین کی جنگ دوسرے روز بھی جاری ہے. روس کے جنگی طیاروں اور میزائلوں نے یوکرین کے مختلف شہروں منجملہ دارالحکومت کیف میں حساس مراکز کو نشانہ بنایا ہے۔ یوکرین کے صدر نے بھی کہا ہے کہ روس نے جمعہ کی صبح سے اپنے حملے دوبارہ شروع کر دئے ہیں۔

اس درمیان امریکی وزیر دفاع لوئیڈ آسٹن نے بعض ارکان کانگریس سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہو‏ئے کہا ہے کہ بیلاروس سے یوکرین میں داخل ہونے والے روسی فوجی دارالحکومت کیف سے صرف بیس میل کے فاصلے پر ہیں۔

ادھر نیوز ایجنسی رویٹرز نے یوکرینی حکام کے حوالے سے بتایا ہے روسی ٹینکوں کے قریب پہنچ  جانے کے بعد کیف کی دفاعی فورس کو اینٹی ٹینک میزائیلوں سے لیس کر دیا گیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے بھی اپنے ایک ٹی انٹرویو میں کہا ہے کہ کیف کے محاصرے کا امکان پایا جاتا ہے، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ روسی صدر ولادیمیر پوتین یوکرین کی موجودہ حکومت کو ختم کر کے اپنی من پسند حکومت کو اقتدار میں لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

 برطانوی وزیر دفاع نے بھی دعوی کیا ہے کہ روس پورے یوکرین پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔ بین ولاس نے دعوی کیا کہ روسی فوج ایک دن میں یوکرین پر قبضہ کرنے میں ناکام ہو گئی ہے اور اسے پہلے دن بھاری نقصانات برداشت کرنا پڑے ہیں۔

اس درمیان امریکا اور مغربی ملکوں نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ وہ روس یوکرین کی جنگ میں براہ راست شریک نہیں ہوں گے۔ امریکی صدر نے کہا ہے کہ ہم جنگ میں شریک نہیں ہوں گے لیکن یوکرین کا ساتھ دیتے رہیں گے۔

فرانس کے وزیر دفاع کا بھی کہنا ہے کہ یورپ اور امریکہ سے کوئی بھی روس کے ساتھ براہ راست جنگ نہیں چاہتا۔

درایں اثنا روسی پارلیمنٹ نے کہا ہے کہ صدر ولادیمیر پوتین نے یوکرین میں فوجی آپریشن کا حکم دے کر عالمی جنگ کا راستہ روک دیا ہے۔

روسی پارلیمنٹ کے دوما کے اسپیکر نے مزید کہا کہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے بحثیت صدر تین بڑی غلطیاں کی ہے ہیں اور آزادانہ پالیسی نہ اپنانا ان میں سے ایک ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین جیسے ملک کو امریکہ کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور امریکہ اور یورپ پر بھروسہ کرنے کے بجائے آزادانہ پالیسی اپنانا چاہیے تھی لیکن صدر زیلنسکی نے یوکرینی عوام کے مفادات کو خاک میں ملا دیا ہے۔

روسی پالیمنٹ کے سربراہ نے کہا کہ صدر زیلنسکی نے منسک معاہدے کو برباد کر دیا اور مشرقی یوکرین کے دونباس ریجن کے نمائندوں سے مذاکرات شروع کرنے میں ناکام رہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button