Columnمحمد مبشر انوار

لانگ مارچ اور عدم اعتماد ….. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

سیاست کی بنیادی روح کو بغور دیکھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ سیاست سے مراد ملک و قوم کی بہتری و بھلائی ہی مقصود ہوتی ہے اور بد ترین حالات میں بھی ملک و قوم کے لیے بہترین نتائج حاصل کرنا ہی سیاستدان کا بنیادی فرض ہے۔ مغربی اقوام میں برطانیہ نے اس حقیقت کو ایک ادارے کی شکل دی جبکہ اسلام اس سے کئی صدیاں پہلے ہی فلاحی ریاست اور عوامی بہتری کے لیے ادارے بھی قائم کرچکا تھا لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ حضرت انسان تاریخ سے نہیں سیکھتا اور ہمیشہ نئے سرے سے کوششیں شروع کرتا ہے یا اپنی فطری جبلت کی جانب لوٹتے ہوئے،اپنے ہی بھائی بندوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کی سعی کرتا ہے۔ بعد از اسلام بھی حضرت انسان اپنی اسی فطری جبلت کے ہاتھوں مجبور ہو کر انسانوں کو غلام بناکربنیادی حقوق سلب کر چکا تھا،بارہویں صدی میں برطانوی عوام نے اپنے حقوق کے لیے جنگ شروع کی اور پہلا معاہدہ حکمرانوں اور مذہبی رہنماو ¿ں کے استبداد کے خلاف طے کیا۔ بتدریج یہ جدوجہد ایک تسلسل کے ساتھ جاری و ساری رہی اوربالآخر جدید تاریخ میں برطانیہ وہ پہلا ملک بنا جس نے اپنے عوام کو بنیادی حقوق کی فراہمی میں ،بعد از اسلام،اولین درجہ حاصل کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان بنیادی حقوق کی فراہمی کا منبع و ماخذ بھی اسلامی تاریخ ہی ٹھہری ماسوائے چند ایسی تبدیلیوں کے،جو مغربی اقوام نے مذہب سے ہٹ کر اور عوامی احساسات کومدنظر رکھتے ہوئے اپنائیں۔ بہرکیف یہ ان کا مو ¿قف ہے کہ جس کے مطابق وہ اپنی قانون سازی کرتے ہیں ،اپنے معاشرے کی جبلت و خواہشات کو سامنے رکھتے ہوئے ،معاشرے کی خواہشات کو قانونی شکل دیتے ہیں،ان قوانین کو یہاں لکھنا مناسب نہیں کہ قریباً اکثریت ان قوانین سے واقف ہے جو خلاف قانون قدرت ہیں یا یوں کہہ لیں کہ اسلامی معاشرے میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بر سبیل تذکرہ فی الوقت کسی بھی اسلامی ریاست میں بھی ،اسلامی قوانین کما حقہ روبہ عمل نہیں اور بیشتر معاشروں میں پس پردہ یہی مغربی قوانین کارفرما ہیں کہ جن کی مختلف وجوہات بہر کیف موجود ہیں،جن سے انکار کیا ہی نہیں جا سکتا۔

بات کہیں سے کہیں نکل گئی،مغربی مہذب معاشروں(سیاسی حد تک)میں سیاسی اطورا ورانداز ایک مسلمہ رخ اختیار کر چکے ہیں اور ان ممالک میں سیاست جمہوری طور طریقوں سے ،معاشروں کو مستفید کر رہی ہے ۔ ایک شخص ایک ووٹ کی بنیاد پر یہ جمہوری معاشرے بخوبی عمل پیرا ہیں اور انتخابات کے دنوں میں عوام اپنی پسند،ناپسند کا کھل کر اظہار کرتے نظر آتے ہیں،جن کی بدولت ان ممالک میں حکومتیں بنتی یا بگڑتی ہیں،جیتنے والے اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہو جاتے ہیں اور ہارنے والے سپورٹس مین شپ دکھاتے ہوئے ،اگلے انتخابات تک اپنی خامیوں پر قابو پانے میں کوشاں رہتے ہیں۔ مغربی معاشرے اس انتخابی عمل میں اس حد تک بالغ نظر ہو چکے ہیں کہ ان کے ہاں ”ایک شخص کا ایک ہی ووٹ“ نہ صرف تصور ہوتا ہے بلکہ ایک ہی ووٹ کاسٹ بھی ہوتا ہے،کہیں سے بھی پس پردہ نتائج کو تبدیل کرنے کی باتیں سنائی نہیں دیتی اور نہ ہی کہیں مقتدرہ کا ہاتھ کسی کو نظر آتا ہے(ویسے چند ایک مواقع پر اس کی باز گشت ضرور سنائی دی ہے )لیکن شواہد سامنے نہیںآئے کہ عدالتیں ان معاملات میں انتہائی سے زیادہ فعال و متحرک ہیں اور ایسی کسی صورت میں انتخابات کا انعقاد کالعدم قرار دینے میں کسی لیت و لعل سے کام نہیں لیتی۔البتہ ٹانگیں کھینچنے کی روش ان معاشروں میں بھی پائی جاتی ہے لیکن یہ انتہائی اہم ترین ملکی و قومی معاملات پر نظر میں آتی ہے ،ایسا نہیں کہ فقط حصول اقتدار یا اپنی لوٹ مار کو چھپانے کے لیے حکومت کو بلیک میل کیا جائے یا اس کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کیا جائے۔ ان ممالک میں قوانین اس قدر سختی کے ساتھ نافذ العمل ہیںکہ وہاں کے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ملک کی کسی بھی شخصیت کو فرار ممکن نہیں اور کسی بھی قسم کی قانونی خلاف ورزی پر قانون از خود حرکت میںآ جاتا ہے۔
تیسری دنیا بالعموم اس کلچر سے گو آہنگ ہو رہی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان ابھی تک ان چیزوں سے باہر نہیں نکل رہا افسوس تو اس امر کا ہے کہ ابتدا میں اداروں کی کارکردگی قدرے بہتر رہی لیکن موجودہ وقت میں اداروں کی ساکھ بہت بری طرح خراب ہوچکی اور عوام الناس کا اعتماد ان اداروں پر قریباً نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے ۔ کسی بھی جائز کام کے لیے بھی نہ صرف دفاتر کے چکر لگانے پڑتے ہیں بلکہ کسی نہ کسی سیاسی شخصیت کا مضبوط حوالہ نہ ہونے پر عوام شدید پریشانیوں کا شکار رہتی ہے یا بصورت دیگر سکہ رائج الوقت کی ادائیگی کے بغیر جائز کام کا ہونا بھی مشکل ترین امر ہے۔ مقام افسوس ہے کہ ملک کا کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں کہ جس پر اعتماد یا توقع کی جا ئے ،انتخابی مہم کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی کارکردگی بھی ایک سوالیہ نشان ہی ہے کہ پہلے تو صرف ہارنے والی سیاسی جماعت ہی دھاندلی کا واویلا کلاتی نظر آتی تھی لیکن اب جیتنے والی جماعت بھی دھاندلی کا شور مچاتی دکھائی دیتی ہے۔ منتخب امیدواران پر پارلیمان کے اندر اور عوامی اجتماعات میں ”سلیکٹڈ“کے آوازے کسے جاتے ہیں لیکن الیکشن کمیشن خاموش رہتا ہے،پتا نہیں اسے اپنی ساکھ کی پروا کیوں نہیں اور کیوں سخت کارروائی سے گریزاں ہے؟سلیکٹڈ یا دھاندلی کی ان آوازوں سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ انتخابی مہم کے دوران بہت زیادہ گڑ بڑ ہوتی ہے،جو گذشتہ ضمنی انتخابات میں وائرل ہونے والی ویڈیوز سے عیاں بھی ہے لیکن اس کے باوجود الیکشن کمیشن کی خاموشی،سمجھ سے بالا ہے۔
اس پس منظر میں جب قریباً سب سیاسی جماعتیں اس دھاندلی کا شوروغوغا کر رہی ہوں،حکومت اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانے سے قاصر ہو، سیاسی قائدین پر ان گنت مالی مقدمات درج ہوں،عدالتیں آئے روز ان مقدمات کی سماعتیں بھی کر رہی ہوں لیکن اس کے باوجود سیاسی قائدین اور مجوزہ ملزمان آزاد پھر رہے ہوں اور اس کے پیچھے کسی ایسی نادیدہ قوت (جسے دانستہ نادیدہ کہنا پڑے)کی تو صرف ایک سچائی سامنے نظر آتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کی سیاست عوامی قطعی نہیں رہی۔اقتدار کی خاطر ان سیاسی جماعتوں کی نظریں اور جدوجہد جمہوری و عوامی قطعی نہیں بلکہ ان کی نظریںاس ”عوام“ کی طرف رہتی ہیں،جو اقتدار کی ضمانت دے سکے،اس کے لیے ان سیاسی جماعتوں کو خواہ کچھ کرنا پڑے۔عمران خان کی حکومت کو ساڑھے تین برس ہو چکے اورہو بہوماضی کی طرح ان کی حکومت ہمہ وقت ہچکولے کھاتی نظر آتی ہے،ان کی ناتجربہ کاری نے مری ہوئی اپوزیشن کو پھر سے زندہ کر دیا اور آج یہ صورتحال ہے کہ عمران کے خلاف اپوزیشن ”ڈرائنگ روم سیاست“کرتے ہوئے،عوامی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے،عوام کو اعتماد میں لیے بغیر ہی اس حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے لیے کبھی اونچی اڑان یا ہرنی کی مانند لمبی قلانچ بھرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن پھر یکدم زمین بوس نظر آتی ہے۔ ایسی اپوزیشن سے کسی نتیجہ کی توقع کیسے کی جائے کہ جو سینیٹ میں اکثریت ہونے کے باوجود کئی ایک مواقعے پر اپنی اکثریت ہی ثابت نہ کر سکے؟ایسی اپوزیشن سے یہ توقع کرنا کہ وہ موجودہ حکومت کو گرانے کے لیے لانگ مارچ کر سکے گی،عبث ہے۔گذشتہ لانگ مارچ کے موقع پر کس طرح اپوزیشن کی جماعتیں بکھریں،سب کو علم ہے کہ پہلی حقیقت تو سب کے مفادات مختلف ہیں ،دوسری حقیقت احتجاج میں شامل ہونے والی عوام کی اکثریت دیہاڑی پر لائی گئی،جسے بعد ازاں معاوضہ بھی نہ ملا اور وہ دہائی دیتی دکھائی دی۔نوے کی دہائی میں کامیاب ہونے والے بے نظیر کے لانگ مارچ کی کامیابی بھی درحقیقت سیاسی جماعت کی کامیابی نہ تھی اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں حکومت کو لانگ مارچ کے ذریعے گرایا جا سکے لہٰذا یقین واثق ہے کہ موجودہ احتجاجلانگ مارچ یا تحریک عدم اعتماد بھی اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی،جب تک اسے کامیاب کروانے والے ،یقین دہانی نہ کروا دیں،اس لیے اپوزیشن کی جانب سے اس وقت تک نہ تو کسی لانگ مارچ کی امید ہے اور نہ ہی عدم اعتماد کی قانونی تحریک کی توقع ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button