Column

لوگ ٹیکس ضرور دیں گے لیکن۔۔؟ ….. ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

حکومت اس مفروضے کو مسلسل بیانیے کا حصہ بنا کر عوام الناس اور دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہتی ہے کہ پاکستان میں نوے فیصد لوگ ٹیکس ادا نہیں کرتے حالانکہ حکومتی بیانیے میں خود حکومت کی نااہلی بھی جھلکتی ہے جبکہ ایک دوسرے عوامی مفروضے کے مطابق (جو قریب ترین سچ بھی ہے ) حکومت ان ڈائریکٹ ٹیکس کی مد میں ایک مزدور ، ریڑھی والے سے لیکر عام آدمی کے ہر قبیل سے اس کی کمائی کا آدھا وصول کر لیتی ہے ۔ پیدا ہونے والابچہ جو پمپمر استعمال کرتا ہے، کھاتا ہے، پیتا ہے، پوشاک پہنتا ہے، یہاں تک کہ دودھ جو اس کی بنیادی غذا اور زندہ رہنے کے لے ناگزیر ہے پر بھی وہ ٹیکس ادا کرتا ہے اسی طرح ہر آدمی جو کچھ کھاتا پیتا ،پہنتا اور خریدتا ہے اس پر وہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔ ظلم دیکھئے پٹرول ، فون بجلی ،سیلولر فون، گیس اور اسی طرح کی دیگر حکومتی اور غیر حکومتی پراڈکٹ پر عام آدمی بھی اتنا ہی ٹیکس ادا کرتا ہے جتنا کوئی ارب پتی۔ حالانکہ دنیا بھر میں یہ دستور ہے کہ امیر سے لے کر غریب کو دیا جائے ۔اسلامی تعلیمات میں یہی اصول بیان کیا گیا ہے تا کہ معاشروں کا توازن خراب نہ ہو لیکن پاکستان میں اس کے برعکس ہو رہا ہے جس کی بنا پر یہاں کوئی بندہ نہ ہی مطمئن ہے اور نہ پر امن زندگی گزار پا رہا ہے۔ حکومت جو ٹیکس وصول کرتی ہے اس کی کئی قسمیں ہیں جن میں معروف فیڈرل ٹیکس، یہ دو قسم کا ہوتا ہے۔ ڈائریکٹ اور ان ڈائر یکٹ۔ڈائریکٹ ٹیکس میں انکم ٹیکس آتا ہے۔ان ڈائریکٹ ٹیکس میں سیلز ٹیکس، کسٹم ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی آتے ہیں۔ انکم کے اوپر لگنے والا ٹیکس انکم ٹیکس کہلاتا ہے۔ انکم ٹیکس”قابل ٹیکس آمدنی“ پر لگتا ہے۔ یعنی وہ آمدنی جو کسی کی ٹوٹل انکم میں سے زکوة، عشر، ورکرز ویلفیئر فنڈز وغیرہ منہا کر کے بچتی ہے۔ مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی ٹوٹل انکم کہلاتی ہے۔ مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی کا حساب کرنے کے 5 طریقے ہیں۔

1 تنخواہ کی مد میں حاصل ہونے والی انکم ۔ 2 پراپرٹی سے حاصل ہونے والی انکم ۔ 3 بزنس سے حاصل ہونے والی انکم ۔ 4 شیئرز وغیرہ کی خرید و فروخت سے حاصل ہونے والے نفع کی انکم اور5 دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی انکم ۔ ٹیکس چونکہ حکومت کا ریونیو ہے اور حکومت کے اخراجات ٹیکس وغیرہ سے ہی پورے ہوتے ہیں، مثلاً حکومت ٹیکس کی بدولت ہی سستی تعلیم، میڈیکل کی سہولیات، انفراسٹرکچر (سڑکیں، پل وغیرہ) اور اشیاءپر سبسڈی جیسی سہولیات عوام کو مہیا کرتی ہے(جس سے عوام محروم ہی دکھائی دیتی ہے) تو عوام کا بھی یہ قومی فریضہ ہے کہ وہ اپنے ٹیکس باقاعدگی سے ادا کریں اور اپنی آمدنی کوچھپانے کے بجائے خود سے ہی اپنے ٹیکس ادا کریں، کیونکہ ٹیکس کی ادائیگی قومی فریضہ ہے۔ مگر جب عام آدمی یہ دیکھتا ہے کہ قانون ساز اداروں میں بیٹھے ہمارے مختار کل خود تو ٹیکس ادا نہیں کرتے تو پھر ہم کیوں ادا کریں ۔” لوگ ٹیکس کیوں ادا نہیں کرتے“ پر کئے گئے ایک سروے میں بڑے دلچسپ حقائق سامنے آئے ۔ سروے میں91 فیصد ٹیکس دہندگان کا کہنا ہے کہ ان کے ٹیکس کی رقوم موثر طور پر استعمال نہیں ہوتیں اور غریب ترین لوگوں کی بہبود پر خرچ نہیںکی جاتیں۔ حکومت نئے ٹیکس گزار تلاش کرنے کی بجائے جو پہلے سے ہی رجسٹرڈ ہیں انہی پر مزید بوجھ ڈالتی رہتی ہے جبکہ زراعت اور خدمات کے شعبے اب بھی بڑی حد تک ٹیکس کے دائرے سے باہر ہیں۔
سروے کے مطابق 47 فیصد ٹیکس دہندگان سمجھتے ہیں کہ ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کا طریقہ پیچیدہ ہے اور اسے سادہ بنانے کی ضرورت ہے۔ لوگ ایف بی آر کی ویب سائٹ میں مسائل کی بھی شکایت کرتے ہیں۔71 فیصد لوگ کہتے ہیں کہ جنرل سیلز ٹیکس کی شرح بہت زیادہ ہے اور معاشی ترقی اور متوسط اور نچلے طبقے کے لوگوں کو درپیش افراط زر کے دباو ¿ سے ہم آہنگ نہیں ہے۔سروے میں معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے فوری طور پر ضروری دو اصلاحات کی نشاندہی کی گئی ہے۔سروے رپورٹ کے مطابق ٹیکسوں کے اہداف میں کمی ملک کے معاشی رہنماو ¿ں کے لیے تشویش کی بات ہونی چاہیے جو امن و امان پر اضافی خرچوں کی وجہ سے غربت کے خاتمے، تعلیم اور صحت کے شعبوں پر کم رقم خرچ کر رہے ہیں۔ ہمارا شمار خیرات و صدقہ دینے کے معاملے میں دنیا کی دس بڑی مگر ٹیکس کے معاملے میں دس سب سے نچلی قوموں میں ہوتا ہے ۔اس کی وجہ جاننے کے لیے کسی ماہر اقتصادیات کی ضرورت نہیں۔ ریاست کو لوگوں پر اور لوگوں کو ریاست پر اعتماد نہیں اور اعتماد یوں نہیں کہ لوگوں سے یا ان کے نام پر جو بھی ٹیکس، قرضہ یا امداد اکٹھی ہوتی ہے اسے خرچ کرنے کے بارے میں لوگوں سے نہ پوچھا جاتا ہے نہ بتایا جاتا ہے۔
قرض اتارو ملک سنوارو جیسی حکومتیں اپیلیں ہوں یا سیلاب ،زلزلہ زدگان کی امداد کے حکومتی اکاﺅنٹ بھرنے اور مدد کرنے میں عوام نے کبھی کسر نہیں چھوڑی لیکن حکومت نے عوام کو کیا دیا ؟ ہسپتالوں کے برآمدوں میں لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں ، پولیس سر عام شہریوں کو زلیل کرتی اور بے گناہوں کو بند کر دیتی ہے۔ قانون اور انصاف کے ادارے عام آدمی کی جان و مال کی حفاظت کے ساتھ اسے انصاف اور تحفظ فرام کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں تمام حکومتی ادارے عوام کو ناکوں سے لکیریں نکلوانا ہی ”فرض“ سمجھتے ہیں۔
اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود لوگ ٹیکس دینا چاہتے ہیں مگر اس کے لیے حکومت عوام کو یہ یقین دلا دے کہ سینٹرل بورڈ آف ریونیو اس سال پوری وفاقی و صوبائی کابینہ اور ارکان اسمبلی سے ٹیکس اور واجب الادا بل وصول کر لے گا اور کوئی یہاں بھوکا نہیں مرے گا، علاج سب کا ہوگا ، تعلیم سب کو ملے گی ۔حکومتی پالیسیوں کی بدولت عام آدمی نے اپنی ذاتی چھت (جو اس کا بنیادی حق اور آئین کا تقاضا بھی ہے) کا خواب دیکھنا ہی چھوڑ دیا ہے اسے وہ خواب لوٹا دیجیے۔ عوام جب حکمران اشرافیہ ، رسہ گیروں ،چوروں، ٹھگوں، بھتہ خوروں اور چندے کی معیشت کی فروانی والے طبقوں کے طرز بود باش اور کھانا پینا دیکھتی ہے تو اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ ہے وہ ہمارا پیسہ جو ہم انہیں دیتے ہیں ۔ لیکن خود روٹی روزی کو ترستے ہیں، اس تفریق کو ختم کر دیجیے غربت اور بھوک ختم نہیں کر سکتے تو اسے مساوی تقسیم کر دیجیے پھر دیکھئے سب لوگ حکومت کی ہر بات پر لبیک کہتے ہوئے اپنی محنت کی کمائی حکومت کو دینے کو تیار ہوجائیں گے۔ جبکہ تجار اور صنعت کار تو اعتماد کے بھوکے ہیں انہیں ان کا اعتماد لوٹا دیجیے اگر یہ سب لوگ پھر بھی ٹیکس نہ دیں میں ہر سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button