Column

مارگئی مہنگائی ….. ناصر نقوی

 ناصر نقوی

معصوم اور ایماندار وزیر اعظم بار بار اوگرا کی سمری عوامی مفاد میں مسترد کرتے ہیں ۔پھر بھی چند دن بعد پٹرول مہنگا ہو جاتا ہے یقین جانیے کہ اس اضافے میں وزیر اعظم کا کوئی دوش نہیں ، مختلف شعبہ جاتی مافیاز رکاوٹ بنے ہیں اور تو اور یہ اتنے طاقت ور ہیں کہ اپنی سازشوں سے اوگرا کی تجویز کردہ قیمت سے بھی زیادہ ریٹ بڑھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ایسے میں وزیر اعظم دکھی ہیں کہ وہ کوشش کے باوجود عوامی ریلیف کے لیے کچھ نہیں کر پارہے حالانکہ ہر اہم میٹنگ میں مہنگائی کے جن کو قابو کرنے کی ہدایات جاری کرتے ہیں لیکن ذمہ داران ٹس سے مس نہیںہوتے۔

بڑے میاں لندن میں پلان بنا رہے ہیں چھوٹے میاںملاقاتوں کے لیے کمر کی تکلیف کے باوجود کمر ٹھوک کر کھڑے دکھائی دے رہے ہیں پی ڈی ایم کے بڑے میاں حضرت مولانا فضل الرحمان کے پی کے میں بلدیاتی فتح یابی کے بعد اور زیادہ مغرور ہو چکے ہیں حالانکہ وہ اپنے شہر ڈیرہ اسماعیل خاں میں میئر کی نشست پر شکست کھا چکے ہیں۔ اپوزیشن کے سب سے چھوٹے میاں بلاول بھٹو زرداری پی ڈی ایم سے بھی پہلے سڑکوں پر آنے کی بھر پور تیاری میں ہیں ان کی للکار ہے کہ وہ جمہوری روایات اور اقدامات کے حامی ہیں ان کی پارٹی اور قیادت نے صرف زبانی جمع خرچ نہیں کیا بلکہ ملک وقوم کے لیے قربانیاں دیں لہٰذا موجودہ دور کو کسی بھی صورت جمہوری قرار نہیں دے سکتے ۔ انھوں نے حکومتی اتحادیوں کے بعد وکلا برادری سے بھی لانگ مارچ کے لیے تعاون مانگا ۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کئی ماہ سے قوم کے درد میں مبتلا ہو کر احتجاجی تحریک چلا رہے ہیں ان تمام لوگوں کا دعویٰ ہے کہ حکومتی نااہلی ، بیرونی قرضوں کی مشکل ترین شرائط ، ناتجربہ کاری اور مہنگائی قوم کومار گئی جبکہ حقیقت یہی ہے کہ تبدیلی سرکار چاہے کامیابی و کامرانی کے جتنے بھی دعویٰ کر لے اسے بھی یہ دن مہنگائی نے دکھائے ہیں جس نے عوام کی کمر توڑ دی اور اب اپوزیشن صحت کارڈ کے اعلیٰ ترین مثالی کارنامے کی موجودگی میں عمران خان کی کمر توڑ نے کے لیے فکر مند ہیں۔ سابق وزیر اعظم چودھری شجاعت حسین نے ہفتوں پہلے بیماری کی حالت میں حکومت کو نسخہ کیمیا دینے کی کوشش کی تھی کہ مہنگائی ناقابل برداشت ہو چکی ہے حکومت عوامی ریلیف کی راہ نکالے لیکن ریلیف کی بجائے بجلی، گیس پٹرول نہ صرف مہنگا کر دیا گیا بلکہ ذمہ داروں نے بجلی کی مد میں دسمبر سے بلوں میں مز ید بقایا جات وصول کرنے کا شیڈول بنا لیا ہے۔ یقیناً یہ فیصلہ مشکل ہی نہیں مبہم بھی ہے ۔ ایسا کیوں کیا گیا اس کی وجوہات حکومتی صفوں کے نادان دوست ہیں۔ دنیا معاشی خوشحالی کی نت نئی تراکیب کے لیے تھنک ٹینک کی خدمات سے مثبت نتائج حاصل کرنے میں مصروف ہیں اورہم صرف جنگی ٹینک سے واقف ہیں عقل و دانش کی موجودگی میں دانشوروں کی فوج ہوتے ہوئے بھی سوچنے سمجھنے اور مستقبل کی منصوبہ بندی سے قاصر ہیں۔ اپوزیشن مارگئی مہنگائی کا نعرہ پارلیمنٹ اور شاہراہوں پر لگا رہی ہے لیکن تجاویز دینے کی بات نہیں کرتی ، ہمارے ممتاز شاعراور دانشور احمد فراز کے صاحبزادے شبلی فراز کی سوچ کا انداز ہ اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا فرمان ہے پٹرول یا جو اشیائے ضروریہ مہنگی ہو گئی ہیں عوام ان کا استعمال کم کر دیں اگر وہ قوم کا دکھ سمجھتے ہو ئے سابق وزیر اعظم محمد خان جو نیجو کی طرح بڑی گاڑیوں سے اتر کر چھوٹی گاڑی سوزکی پر آجاتے تو شاید بات بن جاتی لیکن انہیں معلوم ہے کہ اس فیصلے پر محمد خان جو نیجو کو اقتدار چھوڑنا پڑگیا تھا اس لیے انہوں نے جانتے بوجھتے ایسا نہیں کیا ہو گا ورنہ انہیں یہ پتہ ہے کہ مارگئی مہنگائی ۔۔۔
کوئی خواہ کچھ بھی کہے اندرونی کہانی یہی ہے کہ مار گئی مہنگائی، اپوزیشن کے اتحاد کی بنیاد بھی مہنگائی ہے، نعروں ،احتجاج اور لانگ مارچ کی منصوبہ بندی بھی مہنگائی کے نام پر ہے بلکہ اگر حکومت کی پریشانی کا بھی جائزہ لیا جائے تو حقیقت منہ زور مہنگائی ہی ہے۔ قوم اسے کب تک بھگتے گی یا حکومت اسکے حوالے سے اکٹھے ہونے والوں سے مقابلہ کر سکے گی کہ نہیں ،اسکا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا پھر بھی پوری قوم اس ون پوائنٹ ایجنڈے پر متفق ہے کہ اچھی بھلی قوم کو مارگئی مہنگائی۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام اپوزیشن کے ساتھ سڑکوں پر آئے گی کہ نہیں ؟ تو جواب سیدھا سادہ ہے کہ انہیں سیاسی لیڈروں کے کھوکھلے نعروں پر بالکل اعتماد نہیں ، تبدیلی سرکار نہ ہی اپنے منشور اور دعوے کے مطابق تبدیلی لا سکی اور نہ ہی ماضی کے حکمرانوں کا ایسا احتساب کر سکی کہ لوٹ مار اور ڈکیتیوں کا مال واپس قومی خزانہ بھرنے کے لیے آسکتا ، فی الحال نیب جس خطیر رقم کی بر آمدگی کا دعویٰ کرتی ہے وہ نجی ہاو ¿سنگ سو سائٹیوں اور اداروں سے حاصل کیے گئے ہیں اور اس کارنامے پر نیب کے ذمہ د اروں کو قانونی لحاظ سے کمیشن بھی دی گئی ہے۔ اس صورت حال میں اپوزیشن مہنگائی کارڈ سے حکومت کے لیے دباو ¿ بڑھانے کی حکمت عملی میں رات دن منصوبہ بندی کر رہی ہے کیونکہ مہنگائی ہر گھر کا مسئلہ ہے لیکن گذشتہ پونے چار سال میں اپوزیشن بھی عوامی نقطہ نظر سے حکومت کو ٹف ٹائم نہیں دے سکی جس کی توقعات وابستہ کی گئی تھیں اس لیے تبدیلی سرکار اکثریت نہ ہونے کے باوجود بات بات پر یو ٹرن لیتے لیتے آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنس گئی حالانکہ خان اعظم اقتدار سے پہلے اس فیصلے کو خود کشی گردانتے تھے لہٰذا اس فیصلے اور عالمی ادارے کی مشکل شرائط کے رد عمل نے مہنگائی کے نئے اسباب پیدا کر دیئے ، یوں بے روزگاری اور مہنگائی نے غربت زدہ طبقے ہی کو نہیں ، متوسط افراد کو بھی خودکشی پر مجبور کر دیا ہے لیکن پھر بھی وطن عزیز دنیا کا سستا ترین ملک وزراءکی طرف سے قرار دیا جارہا ہے۔ عوامی سواری چنگ چی رکشہ کے ذمہ داروں نے سٹاپ ٹو سٹاپ کرایہ کم از کم 30 روپے کر دیاہے ۔شہر سے باہر جانے والی ٹرانسپورٹ کے مالکان نے200 روپے اضافہ کر دیا ہے لاہور میں رکشہ یونین نے احتجاجی مظاہرے کیے جو خالصتاً عوامی مفاد میں تھے کیونکہ اب رکشہ بھی عوامی پہنچ سے باہر ہوگیا لوگ رکشے کی بجائے مجبوراً چنگ چی استعمال کریں گے ذرا اندازہ لگائیں کہ بےروزگاری کا نیا بحران جنم لے گاجس کا حل کسی کے پاس نہیں ، ہول سیلرز نے آٹا ،چینی، سبزیاں ، یعنی بنیادی اشیائے زندگی مہنگی کردیں تو پرچون فروش قیمتوں میں بھی اضافہ کریں گے جو بوجھ عوام کو اٹھانا پڑے گا ایسے میں عوامی سوال یہ ہے کہ اب انسان کیا کھائے اور کیا کیا چھوڑ دے؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ اپوزیشن مارگئی مہنگائی کانعرہ بلند کرتے ہوئے عوام کو سڑکوں پر لانے کی خواہش مند ہے۔ یقیناً اسے موقع مل گیا لہٰذا وہ ایڑی چوٹی کا زور لگائے گی لیکن اس کے ردعمل میں چودھری شجاعت حسین جیسے سیا سی بزرگ اور اتحادی کے مشورے پر حکومت نے عوامی ریلیف کی بجائے وزیر اعظم عمران خان نے منڈی بہاو ¿الدین سے عوامی رابطہ مہم کے نام پر جلسے شروع کر دیئے ہیں ۔بظاہر ان کا یہ فیصلہ عوام میں جانے کا ہے لیکن انہیں یہ نہیں معلوم کہ اقتدار حکومت میں بھاری بھرکم جلسے اور جلوس عوامی ہر گز نہیں ہوتے بلکہ اجتماع خاص ہوتے ہیں۔ ایم این اے،ایم پی اے اور وفاداران دھونس دھاندلی اور سنہرے خواب دکھا کر لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے انتظامیہ کا سہارا بھی لیں گے عوام اگر اپوزیشن کے جلسوں میں نہیں جائے گی تو حکومتی جلسوں میں بھی غیر حاضر ہی رہے گی کیونکہ ا سے تومارگئی مہنگائی ۔ اس کی نئی زندگی کے لیے ایک ہی تعویز ہے ریلیف ۔۔ جو کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے پاس نہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button