کاروبار

نئی حلقہ بندیاں اور اعتراضات ….. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے نئی حلقہ بندیوں کا اعلان ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب حکومت اور اپوزیشن آپس میں دست وگریبان ہیں۔صوبے کے 36 اضلاع میں 2544 این سی (نیبرہوڈ کونسلر) اور 3128 ویلج کونسلر ہوں گے۔صوبائی الیکشن کمیشن نے لوکل گورنمنٹ آرڈننس 2021 کے تحت حلقہ بندیوں کا کام سرانجام دیا ہے۔اس سلسلے میں نئی حلقہ بندیوں کے خلاف اعتراضات مانگ لیے ہیں جن کا فیصلہ 22 مارچ تک متوقع ہے۔نئی حلقہ بندیوں میں راولپنڈی شہر کو میٹروپولیٹن سٹی بنا کر کم ازکم سو این سی بنائی جائیں گی اس طرح بیس ہزار کی آبادی پر ایک این سی ہوگی۔ سیاسی حلقوں نے نئی حلقہ بندیوں پر بہت سے اعتراضات کئے ہیں جن میں سب سے بڑا اعتراض یہ ہے صوبائی الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں کے قیام کے لیے زمینی حقائق کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے دفاتر میں بیٹھ کر حلقہ بندیوں کی تقسیم کر دی ۔

نئی حلقہ بندیوں میں آبادی کے کسی ایک بلاک کو کم ازکم ایک کلومیٹر دور کسی دوسرے حلقے سے ملا دیا گیاہے جوایک غیرفطری اور زمینی حقائق کے برخلاف ہے۔اس کے برعکس سابقہ یو سی میں ایک بلاک کی صورت میں تھی جیسا کہ ایک سٹریٹ آپس میں ملی ہوتی ہے جس کے مسائل ایک ہی مرتبہ حل ہونے میں آسانی تھی۔مثال کے طور پر سیوریج اور واٹر سپلائی لائن ایک ہونے کی صورت میں ایسے بلاک کے مسائل حل کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔لیکن نئی حلقہ بندیوں میں ایک ہی بلاک کو مختلف این سی میں منقسم کر دینے سے عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں بڑی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔چنانچہ اس صورت حال میں عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے کس این سی کے چیئرمین کے پاس جائیں گے۔نئی حلقہ بندیوں میں کچھ اس طرح کے مسائل جنم لے سکتے ہیں جس طرح پولیس اسٹیشن کی حدود کا تعین کرتے وقت تنازعات کھڑے ہو جاتے ہیں۔پھر ایسی صورت حال میں این سی کے دفاتر قائم کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔حکومت کے پاس این سی کے دفاتر قائم کرنے کے لیے سرکاری عمارات کی عدم فراہمی کی صورت میں زیادہ سے زیادہ عمارات کرایوں پر لینا پڑیں گی ۔حکومت کو این سی کے لیے عمارات کے حصول کے لیے کرڑوں روپے کرایوں پر خرچ کرنا ہوں گے جو صوبائی حکومت کے خزانے پر غیر ضروری بوجھ بڑھنے کا احتمال ہے۔اس کے ساتھ نئی حلقہ بندیوں سے گلی محلوں کی صفائی، سیوریج اور پانی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے وسائل کی تقسیم کا مسئلہ کھڑا ہوسکتا ہے جس میں سرکاری عملہ کے لیے نئی مشکلات پیدا ہونے کے خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
صوبائی الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیاں تشکیل دیتے وقت ایک یا دو این سی کو یکجا بنانا چاہیے تھا جس میں این سی کو تقسیم کرنے والی کوئی بڑی سٹرک ہونی چاہیے تھی۔اس ضمن میں ہمارا سوال یہ ہے صوبائی حکومت کو نئی حلقہ بندیوں کی ضرورت کیوں پیش آئی؟مشرف دور میں جو یونین کونسلز بنائی گئی تھیںوہ ایک بہترین تقسیم تھی جس میں عوامی نمائندوں کو جو اختیارات حاصل تھے وہ گراس روٹ لیول پر عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی طرف ایک اچھی کوشش تھی۔دیکھا جائے تو مشرف دور کے بلدیاتی نظام میں پنجاب میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام ہوئے۔اس دور کی یونین کونسل کے چیئرمین متعلقہ تھانوں اور تعلیمی اداروں کی مشاورتی کونسلوںکے رکن ہوتے تھے جو وہاں عوامی مسائل کی اچھے طریقہ سے نشاندہی کرسکتے تھے۔اسی طرح ڈسٹرکٹ کونسل کے اجلاسات کے موقع پر ای ڈی اوزباقاعدہ موجود ہوتے تھے جہاں کسی بھی مسئلہ کی نشاندہی کی صورت میں ای ڈی اوز کو جواب دہ ہونا پڑتا تھا۔اہم بات یہ ہے ای ڈی اوز کے علاوہ بیوروکریسی یعنی ڈپٹی کمشنروں تک عوامی نمائندوں کو براہ راست رسائی حاصل تھی۔اس دور کے بلدیاتی نظام میں بیوروکریسی عوامی نمائندوں کے روبرو جواب دے تھی جو موجودہ حکومت عوامی نمائندوں کو دینے کے لیے تیار نہیں۔مشرف ہی کے بلدیاتی نظام میں این جی اوز کی طرف سے ملنے والی امداد براست عوامی نمائندگان کو دی جاتی تھی۔
تازہ ترین صورت حال میں بلدیات کاانتظام ضلعی انتظامیہ کے سپرد ہے جس میں راولپنڈی کے بہت سے علاقوں کے سیوریج لائن کے پانی کو نئی پائپ لائنیں بچھا کرانہیں برساتی نالوں میں ڈالا جا رہا ہے حالانکہ قانونی طورپر سیوریج کے پانی کوبرسانی نالوں میں نہیں ڈالا جا سکتا۔بلدیات جو عوامی مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔صوبائی حکومت اور صوبائی الیکشن کمیشن کو مفادعامہ کومدنظر رکھتے ہوئے حلقہ بندیوں کو تنظیم نو کرنی چاہیے ۔جلد بازی میں کسی کام نے نتائج اچھے برآمد نہیں ہوا کرتے۔پنجاب حکومت کو اگر بلدیاتی انتخابات کرانامقصود ہے تو اسے نئی حلقہ بندیوں پر نظر ثانی کرکے عوامی نمائندوں کے خدشات دور کرنے چاہئیںوگرنہ دوسری صورت میں عوام کواپنے بنیادی مسائل کے حل کرنے میں مشکلات کاسامنا ہو سکتا ہے۔صوبائی الیکشن کمیشن اور صوبائی حکومت کو عوامی نمائندوںکے اس فورم کی تشکیل کو حتمی شکل دینے سے قبل تمام سٹیک ہولڈرز کواعتماد میں لینا چاہیے۔اس کے ساتھ پنجاب حکومت کو نئی حلقہ بندیوں کے تنازعات حل ہونے کے بعد بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔اب حکومت کے پاس وقت ہی کیا رہ گیا ہے ۔اگر کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات ہو سکتے ہیں تو پنجاب میں تاخیر کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ ضلعی انتظامیہ کو بلدیات کا نظام دینے سے عوام کے مسائل کبھی حل نہیں ہوسکتے اور نہ ضلعی انتظامیہ کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ وہ گلی محلوں کی سطح پر جاکر عوام کے مسائل کو حل کرسکیں۔پنجاب کے عوام ایک عرصہ سے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے منتظر ہیں۔وزیراعظم عمران خان ویسے بھی ملک کو ریاست مدینہ کے ہم پلہ بنانے کی جستجو میں ہیں۔ریاست مدینہ کے رہنے والوں کو اپنے مسائل کے حل کی خاطر خلیفہ کے در پر جانا نہیں پڑتا تھا بلکہ خلیفہ وقت ان کے مسائل کوان کے گھر کی دہلیز پر حل کیا کرتاتھا۔ہمیں امید ہے پنجاب حکومت صوبے میں وقت ضائع کئے بغیر بلدیاتی انتخابات کے انعقادکے انتظامات کو یقینی بنائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button