Column

قانون کی آنکھیں۔۔۔؟ ….. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

سرکاری اور نجی اداروں میں جس بھی کسی کام کا ٹینڈر نکالا جاتا ہے۔یاتواُس کا اشتہار دیا جاتا ہے یا کسی ادارے یاشخص کو ایوارڈ کر دیا جاتا ہے۔ کسی بھی کام یا سپلائی کے لیے کم از کم ریٹس کو ترجیح دی جاتی ہے لیکن اصل میں یہاں ہوتا کچھ اور ہی ہے۔بالخصوص سرکاری محکموں میں تو جس کام کے لیے کوٹیشن یعنی ریٹس دیئے جاتے ہیں وہاں من پسند لوگوں کو کام دینے کے لیے پہلے تو کم از کم ریٹس انہیں بتا دیا جاتا تھا اور انہیں کہا جاتا تھا کہ اِس سے کچھ کم ریٹس کا ٹینڈر جمع کروا دیں۔دوسرا طریقہ یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ سب سے کوٹیشنز لے لی جاتی ہیں اور پھر جس دن اُن ٹینڈرز کو کھولنا ہوتا ہے اُس دن کوئی وجہ بنا کر ٹینڈرز منسوخ کر دیئے جاتے ہیں۔اِس طریقے سے تمام ٹینڈر بھرنے والوں کے ریٹس مجاز اتھارٹی کے پاس آ جاتے ہیں اور پھر اُن میں سے اپنے من پسند لوگوں کی چھانٹی کر کے لاکھوں،کروڑوں اور اربوں کے ٹھیکے انہیں دے دیے جاتے ہیں لیکن پچھلے تیس چالیس سال سے سرکاری اداروں میں جو لاکھوں کروڑوں کے منصوبہ جات کے ٹھیکے دیئے جاتے رہے اِن میں سے اکثریت کے ٹینڈر کھولے ہی نہیں گئے اوراپنے من پسند لوگوں کو کام دے کر مالی فوائد حاصل کئے جاتے رہے۔اب سوچنے کی بات ہے کہ سرکاری وسائل پر قابض حکمران بغیر عوامی ٹینڈرز کے کروڑوں اور اربوں کے کام کس طرح اپنے من پسند لوگوں کو تفویض کرتے رہے۔
قوم کے ساتھ ظلم یہ ہوا کہ قریباً تمام مہنگے منصوبوں میں پی سی ون اور پی سی ٹو وغیرہ کی دھجیاں اڑا کر تقابلی ریٹس کاڈرامہ شروع کیا گیا۔اب ہوتا یہ تھا کہ کسی بھی سرکاری منصوبے کی لاگت اُس کی اصل لاگت سے بڑھا کر پیش کی جاتی اور پھر جعلی کوٹیشنز کا سلسلہ شروع کیا جاتا جس میں اپنے من پسند فردیاادارے کو ٹھیکہ نواز دیا جاتا لیکن یہ کاریگری دکھانے سے قبل سرکاری فائلوں کاپیٹ بھرنے اور اپنی کمیشن/کک بیکس کو چھپانے کے لیے اِسی منصوبے کی مہنگی ترین کوٹیشنز کو ریکارڈ کا حصہ بنا یا جاتا رہا۔اسے(Comparative Qoutations)کہا جاتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ کوٹیشنز اصل لاگت اور ٹھیکے کی رقم سے بہت زیادہ ہوتی تھیں لیکن اُن جعلی کوٹیشنز کو اول تو ٹھیکوں میں کروڑوں اربوں کی کرپشن/کک بیکس کے لیے استعمال کیا جاتا دوسرے اُن جعلی کوٹیشنز کو سیاسی طور پر یہ کہہ کر استعمال کیاجاتارہا کہ ہم نے ہر پراجیکٹ میں اربوں روپے بچائے۔آج سے قریباً 20 سال قبل سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر پنجاب میں ایک بڑے بلڈر کی حیثیت سے اُبھرے تھے اور اُن کی کنسٹرکشن کمپنی نے Pace اور دوسرے بڑے تعمیراتی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔دوسرے تمام بلڈرز کے برعکس سلمان تاثیر کے تمام تعمیراتی منصوبے اعلیٰ تعمیراتی معیار پر پورا اترتے تھے۔لاہور میں بیدیاں روڈ پر لدھڑ پنڈ کے پاس سلمان تاثیر نے ایک رہائشی منصوبہ Pace Wood Landsکے تحت 160گھر بنائے، یہ ڈبل سٹوری گھر اور تمام گھر 10 مرلے کے رقبہ پر مشتمل تھے۔اِس تعمیراتی منصوبے پر میں نے سلمان تاثیر اور آمنہ تاثیر کے ساتھ کام کیا۔اس سوسائٹی کے دو ماڈل ہاؤسز کے انٹیریئرکاکام میری کمپنی نے کیا تھااور میں اِس منصوبے کے تعمیری معیار کو دیکھ حیران تھا سلمان تاثیر اور آمنہ تاثیر اپنے تمام کاروبار اور دیگر مصروفیات سے وقت نکال کر اِس تعمیراتی رہائشی منصوبے پر خود وقت دیا کرتے تھے۔

پیس ووڈ لینڈز کے ماڈل ہاؤس کی انٹیریئر ڈیزائنگ کے دوران مجھ پر یہ انکشاف ہواکہ بظاہر آرکیٹیکٹ کہلوائے جانے والے اصل میں ٹھیکیدار بنے ہوتے ہیں دوسرا سلمان تاثیر کی تمام کمپنیاں اپنے ملازمین اور وینڈرز کو رقوم کی ادائیگی میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں کرتیں۔مجھے سلمان تاثیر کی کمپنیوں کے ساتھ کام کر کے ہی کوٹیشنز کی اِن ہیرا پھیریوں کے بارے معلومات حاصل ہوئیں۔ہوتا کچھ یوں تھا کہ سلمان تاثیر کی کمپنیوں کا ایچ آر ڈیپارٹمنٹ جب بھی کوئی تعمیراتی کام تفویض کرنے کے لیے پارٹیوں کو بلاتے تو تمام تفصیلات کے ساتھ ریٹ بھی آفر کرتے تھے۔ اِن سب پر باہمی مشاورت کے ساتھ ردوبدل بھی ہو جاتا تھا لیکن وہاں بھی تقابلی کوٹیشن جو اصل ریٹ سے تھوڑی زیادہ ہوتی تھی وہ ریکارڈ کا حصہ بنائی جاتی تھی۔مجھے یاد ہے کہ میں نے اُن کے ایچ آر ہیڈ سے جب ایک بار پوچھا کہ آپ تو کارپوریٹ سیکٹر میں کام کر رہے ہیں اور کمیشن بھی نہیں مانگتے تو پھر یہ تقابلی کوٹیشنز کو ریکارڈ میں لگانے کا مقصد؟اُن صاحب کا جواب تھا کہ ہمارے تمام منصوبوں کے ریٹ مارکیٹ پر مکمل ریسرچ کے بعد نکالے جاتے ہیں لیکن آڈٹ کے پیش نظر ہم تقابلی کوٹیشنز ساتھ ضرور لگاتے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اکثر ہم اِن منصوبوں میں کام اُن ہی کمپنیوں کو دیتے ہیں جو ہمارے ساتھ پرانا چل رہی ہوتی ہیں اور ہم اُن کے کام سے مطمئن ہوتے ہیں۔پھر جب میں نے اُس تقابلی کوٹیشنز یا ریٹس کے تقابلی جائزے پر غور کیا تو مجھے بہت جلد یہ حقیقت معلوم ہو گئی کہ جہاں پرائیویٹ اور کارپوریٹ سیکٹر تقابلی کوٹیشنز کو آڈٹ اور کمپنی کے سرمایہ بچانے کے لیے استعمال کرتی ہیں وہاں یہ طریقہ سرکاری وسائل کو وحشیانہ طریقہ سے لوٹنے کے بھی کام آتا ہے۔

ہوتا یہ رہاہے کہ ایک ارب کے سرکاری منصوبے کو اپنے پسندیدہ لوگوں کو 2 ارب میں دے دیا جاتا جبکہ سرکاری فائلوں میں اُس کے تقابلی ریٹس کو 3 ارب دکھا دیاجاتااور اس طرح سے ایک ارب جیبوں میں ڈالنے کے باوجود شور مچا دیا جاتا ہے کہ ہم نے 3 ارب کا منصوبہ 2 ارب میں مکمل کروا کر ملک کاایک ارب بچا لیا۔پاکستان میں اربوں ڈالر کی کرپشن اور پھر منی لانڈرنگ کے ذریعے اِس لوٹے ہوے سرمائے کو اپنے غریب ملازمین کے جعلی بنک اکاونٹس بنا کربیرون ملک پہنچانے والے شہباز شریف نے کچھ ایسا ہی بیان گزشتہ روز اُس احتساب عدالت میں دیا جہاں اُن پر حمزہ شہباز و دیگر 16 ملزمان سمیت فرد جرم عائد ہونے والی تھی۔شہباز شریف نے کہا کہ میں نے ان منصوبوں میں قریباً ایک ہزار ارب کی بچت کی۔”اندھیر نگری چوپٹ راج“ اِسے ہی تو کہتے ہیں کہ عدالت باپ بیٹے پر قریباً آٹھ ارب روپے کے ناقابل تردید شواہد اور گواہان کی موجودگی میں فرد جرم عائد کرنے جا رہی تھی اور موصوف عدالت میں مشرف کے زمانے کی باتیں اوراربوں کی لوٹ کھسوٹ کو قومی منافع میں دکھانے کی کوشش کر کے سیاسی بیانات داغ رہے تھے۔ ابھی چند ماہ قبل ہی موصوف رات کے اندھیرے میں برطانیہ فرار ہونے کے لیے چپکے سے لاہور ایئرپورٹ پہنچے لیکن ایف آئی اے کی فرض شناس خاتون افسر نے عطا تارڑ اور عظمی بخاری وغیرہ کی دھمکیوں اور دھونس کے باوجود شہباز شریف کی ملک سے فرار کی کوشش ناکام بنا دی تھی۔رہی بات شہباز شریف کے برطانیہ سے واپس آنے کی تو سب جانتے ہیں کہ شہباز شریف کو وزارت اعظمی کا جھانسہ دے کر پاکستان واپس بلایا گیا تھا وگرنہ تو موصوف اپنے بھگوڑے بھائی کی عیادت کے بہانے لندن کی سڑکوں پر ادھر اُدھر بھاگتے تو دکھائی دیتے تھے لیکن پاکستان واپس آنے سے انکاری تھے۔

بطور صحافی میرے لیے شہباز شریف اور حمزہ شہباز وغیرہ کے وکلاء کی ایف آئی اے کے وکلاء سے بدتمیزی اور جھڑپ اور پھر شہباز شریف کی کورٹ میں ڈائس پر آ کر سیاسی تقریر نہایت حیران کن تھی۔کسی بھی عدالت میں پیشی کے موقع پر ایک ملزم (جس پر ساڑھے پانچ ارب منی لانڈرنگ کی فرد جرم عائد ہونی ہو) کا ایساڈرامہ نہ پہلے سنااورنہ دیکھا۔ قومی دولت لوٹنے والے ایسے ملزموں کا ایسا رویہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اِس تاثر کو تقویت بخش رہا ہے کہ پاکستان میں طاقتور کے لیے قانون کوئی حیثیت نہیں رکھتا جبکہ غریب یا عام شخص حصول انصاف کے لئے ایڑیاں رگڑتا ہوا ہر سو عدالتوں اور جیلوں میں ذلیل و خوار ہوتا دکھائی دیتاہے۔جو کچھ ایف آئی اے کی ٹیم پر اسلام آباد میں ہوااور اِس کے بعد جو فیصلہ وہاں کے ایڈیشنل سیشن جج نے دیا وہ ریاست کی تنزلی کی بدترین مثال ہے۔جس ریاست میں مخلوق کو انصاف نہیں ملتا وہ ریاست مٹ جایا کرتی ہے۔قانون کے بارے میں کہا جاتا ہے کی قانون اندھا ہوتا ہے لیکن پاکستان غالباً دنیا کے ان چند ملکوں میں سے ایک بن چکا ہے جہاں ”قانون کی آنکھیں“ہیں۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button