Column

ہمارا قومی مزاج …… امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

اقوام عالم میں فلاحی ریاستیں کامیاب ترین ریاستیں ہیں۔جن ریاستوں میں عوام کو بنیادی حقوق میسر ہیں اُن کی تنزلی ناممکن ہے۔ وطن عزیز پاکستان کے سینکڑوں مسائل میں سے ایک مسئلہ اچھی قیادت اور گڈ گورننس کا فقدان ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے بعد بد قسمتی سے پاکستان کو کوئی اچھا لیڈر نصیب ہی نہیں ہو سکا۔لیڈر شپ کے اِس قحط نے آج تک اقوام عالم کے سامنے ہمیں بونی اور اپاہج قوم کے طور پر زندہ رکھا ہوا ہے۔کہا جاتا ہے کہ جس جگہ سایہ دار اور پھل دار درخت نہ اُگیں وہاں خود رو جھاڑیوں کا راج ہوتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کے ہر گلی محلے میں خود ساختہ لیڈران کا جمعہ بازار لگا ہے،ہر دوسرا شخص خود کو بطور سماجی،سیاسی اور قومی لیڈر کے متعارف کرواتا ہے۔رہنما ہونا اتنا ارزاں بنا دیا گیا ہے کہ جسے دیکھو وہ موٹیویشنل سپیکر ہے،سوشل میڈیا کو ہاتھ میں لیے شہرت کی تمام بلندیوں کو پاؤں تلے کچل کر ستاروں سے اگلے جہاں کا متلاشی ہے۔ قریباً ہر شخص کے پاس پاکستان کو مسائل سے نکالنے کا فوری حل موجود ہے۔کبھی غور کریں کہ نائن الیون سے قبل ملکی صورتحال پر امن وسکون تھی۔ دہشت گردی کی رمق تک محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں صنعتوں، کارخانوں، ملوں کے جال بچھ رہے تھے۔ زراعت کی ترقی تیزی سے جاری و ساری تھی۔ محکمہ آبپاشی و انہار اِس قدرمسائل کا شکار نہ تھا۔ پانی کی قلت کا سوچا بھی نہ جا سکتا تھا۔ ہمارے راوی،ستلج، چناب، جہلم اور پنجند خوب بھرے رہتے تھے۔کوریا اور ملائیشیا جو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں آ چکے ہیں، کبھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سسٹم، پالیسیوں اور ترقی کی تیز رفتاری سے متاثر تھے اور چین جو اِس وقت دنیا کی عظیم طاقت بن چکا ہے کبھی پاکستان سے فن و ہنر مستعار لینا چاہتا تھا۔ مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہی ملک دو لخت کر دیا گیا۔ مفاد پرست، نااہل سست رو قیادت کے روّیوں کو آج ہم قائدؒکے افکار کے برعکس دیکھتے چلے جاتے ہیں۔ آجر اور اجیر کی رسہ کشی سے ملکی پیداوار کا ناس ہوا، مالک اور مزدور کی کشمکش نے ملکی صنعتی خام مال کو برباد کر دیا۔ حاکم اور محکوم کے تعلقات کی خرابی نے اداروں کو عملاً ٹھپ کر دیا۔ جب پالیسی ساز قوت اور ورکنگ پوٹینشل آمنے سامنے آجائے تو مفاد پرستوں کو حالات کا فائدہ اٹھانے کا بھر پور موقع ملتا ہے۔ چاپلوس، خوشامد ی اور کرپٹ فنکار مزے لوٹتے ہیں۔ جوجس کا بن پاتا ہے،بناتا ہے اور 1972ء کے بعد ملک کے اند ر عمومی طور پہ یہی کچھ ہورہا ہے۔

آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے اداروں کو تباہ کر کے ملک کو مفاد پرست و کرپٹ طبقوں نے یر غمال بنا لیا ہے۔ پی آئی اے،ریلوے، سٹیل مل، زرعی و پاور جنریٹنگ و پاور ڈسٹری بیوشن کے تمام اہم ادارے کیسے دیوالیہ ہوئے؟ ملک کے یہ اہم ادارے ہماری نااہلیوں کے سبب ناکام ہوئے تو بات نجکاری تک آ گئی۔اس میں شک نہیں کہ ہماری اعلیٰ قیادت کی بھی کمزوریاں ہونگی۔ مگر ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہم خود کیا ہیں؟ بحیثیت صنعتکار، اکانومسٹ، سرکاری افسر، ہیڈ آف انسٹیٹیوٹ، سائنسدان، ہوا باز، آرکیٹیکٹ، ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، استاد، محافظ، پولیس مین، فوجی، صحافی، طالبعلم، مزدور۔ ہم خود کیا ہیں؟ ملکی معیشت کو کمزور کرنے، قوم کومشتعل بنانے، ملک کی نظریاتی بنیادوں کو ہلانے والوں کو، ہم سب کو اِس ملک کی، اپنے ملک کے اداروں کی تباہی میں اپنے اپنے حصے کا حساب ضرور کرنا چاہیے۔شخصی ذمہ داریوں کو پرکھ کر ہی مجموعی ذمہ داریوں کا ٹھیک اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔پتہ تو چلائیں کہ اپنے قومی اداروں کو کھا جانے والا دیمک ہم خود ہی تو نہیں؟

لاکھوں کا سرکاری مال اورمشینری چھوٹے چھوٹے سرکاری گوداموں میں ڈنپ کردیا جاتا ہے یااِسے ہم بیکار بنا کے رکھ دیتے ہیں تو بڑے سرکاری اداروں میں اربوں کیوں نہ ہماری بے احساسی و لاپر واہی کا شکار بنے ہونگے؟ پیسہ بنانا،ریسورسز نکالنا ہی ہمارا کام نہیں، قومی دولت کا ضیاع روکنا اور موجود وسائل کو ٹھیک سے استعمال میں لانا بھی ایک فن اور بڑا کام ہے۔ سرکار و عوامی بہبود پہ اِن کا ستعمال سرکاری اہلکاروں کا فرض ہے اور سرکاری اہلکاروں کی یہ فرض شناسی سرکاری نیک نامی ہی ہے وگرنہ سرکار کو یونہی بدنام نہ کیا جائے؟میں سوچ رہا ہوں کہ پی آئی اے، ریلوے، سٹیل مل اور دیگر ادارے آخر کیونکر دیوالیہ ہوئے، اِن اداروں سے وابستہ لاکھوں خاندانوں کے چولہے کیوں ٹھنڈے ہوئے، اِس میں یقینا اعلیٰ قیادت سے زیادہ اداروں کی اپنی قیادت کی غلطی ہوگی۔ اِن متذکرہ اداروں کا خسارہ پورا کرتے کرتے جو رقمیں خرچ ہو رہی ہیں یہی رقمیں عوامی بہبود کے محکمہ صحت و تعلیم کے منصوبوں کی تکمیل پہ خرچ ہو سکتی تھیں۔ اگرایسا ہوتا توملک معاشی بدحالی کے گرداب میں نہ پھنستا۔ جو مافیا اداروں پہ قابض نظر آرہا ہے یہ سربراہان کو چلنے نہیں دے گا۔ اہل اور ایماندار افراد ہی ملکی سرمایہ ہوتے ہیں اور وسائل و سرمائے کا ضیاع ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے۔اِس وقت جس مہنگائی،بیروزگاری کا ہم رونا رو رہے ہیں کبھی ٹھنڈے دماغ سے غور کریں،کیا یہ دو چار سال کا قصہ ہے یا بات پرانی ہے؟جو کھیت کھلیان کبھی سونا اگلتے،دریاؤں کی روانی ماحول کو معطر کرتی تھی،کیا وہاں آج رہائشی سوسائٹیاں نہیں بن چکیں؟یہ سچ ہے کہ چند لوگوں نے اپنے مفاد کی خاطرخودرو لیڈرز کو ہوا دی اِنہیں اقتدار کی راہ داریوں تک پہنچایا اور وہ سب کچھ کر دیا جو کوئی دشمن بھی نہ کر پایا۔

افسوس آج وطن عزیز کی اکثریت دو وقت کی روٹی کے حصول سے بھی عاجز ہے۔خودغرضی،حرص، لالچ،رشوت،سود خوری، حق تلفی نہ جانے کیا کیا،یہ سب ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے۔اِس وقت ملک مشکل ترین حالت میں ہے، حکومت بے بس و لاچار دکھائی دے رہی ہے،اپوزیشن خاموش تماشائی، فقط ذاتی مفاد کی جنگ میں مبتلا ہے۔اور عوام بھی سوشل میڈیا کی حد تک جہاد میں مصروف ہے۔ ایسے میں عوام کے دکھوں کا مداوہ کرنے کو کوئی تیار نہیں۔افسوس کہ لیڈراِن کے اِس جم غفیر میں کوئی بھی ایسا نہیں جس کا کوئی قد کاٹھ ہو جو قوم کے بونے پن کو ختم کر سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button