Column
کیلاش، دو ہزار سال قدیم روایات نبھاہتے لوگ ….. قیصر عباس صابر

قیصر عباس صابر
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کی وادیئ کیلاش کے باسی لمحہ لمحہ جدید ہوتی دنیا میں بھی دو ہزار سال پرانی رسوم نبھائے جارہے ہیں۔ وہ اپنے قبیلے کی روایات کو بوجھ بھی نہیں سمجھتے۔ پانچویں بار ہم کیلاش جا رہے تھے، دیر بالا کی سنسان راہوں سے ہوتے ہوئے لواری کے قریب پہنچے تو ساڑھے دس کلو میٹر طویل لواری ٹنل ہمارا منتظر تھا۔ اِس سے قبل لواری ٹاپ کی برفیلی بلندیاں اہالیان چترال کے لیے عذاب تھیں انہیں پشاور یا اسلام آباد جانے کے لیے بہت سی مشکلات سے گزرنا پڑتا تھا۔ سال بھر میں صرف تین ماہ کے لیے لواری ٹاپ کی برف پگھلتی تو زمینی راستہ کھلتا۔ اب کی بار ٹنل نے دس گھنٹے کا سفر دس منٹ میں بدل کر آسان کردیا۔ 1971 کا یہ منصوبہ 2017 میں مکمل ہوا تھا۔
دریائے چترال ہماری بائیں سمت بہتا تھا اور ہم پانی کی روانی کے برعکس بڑھتے چلے جاتے تھے۔ نگر کا قصبہ آیا اور فوجی چیک پوسٹ سے گزر کر ہم تحصیل دروش جا پہنچے۔ صرف اکتیس کلومیٹر کے فاصلے پر افغانستان کی حدود کا آغاز تھا مگر ہم چترال کی طرف مڑ گئے۔ دروش، چار گھنٹوں کی مسافت کے بعد یہ پہلا شہر تھا جہاں زندگی رواں تھی۔ دروش کے بعد دریائے چترال کے کنارے ایون کا بس سٹاپ ہمارا دوسرا پڑاؤ تھا۔ الیگزینڈرا ہوٹل کیلاش کے مالک سراج نے وادیئ بمبوریت جانے والی جیپ ہمارے لیے بک کروا رکھی تھی۔ ہم نے اپنی کار پٹرول پمپ پر پارک کی اور جیپ پر سوار ہو کر دریا پار کر گئے۔ زرخیز اور شاداب باغات کے بعد سنگلاخ چٹانوں اور کچھ ندیوں نے بارہا ہمارا رستہ مشکل بنایا مگر تین گھنٹے کی دشوار گزاری کے بعد ہم خوابوں کی سرزمین میں داخل ہوگئے۔ یہ وادیئ بمبوریت کا گاؤں کراکال تھا۔ کھیتوں میں کام کرتی خواتین سیاہ رنگ روایتی لباس پہنے کسی فلم کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ سروں پر بیش رنگ ٹوپیاں اور سیاہ رنگ فراکوں پر سرخ و سبز دھاریاں اِن کا روایتی لباس تھا۔کیلاش کی تین وادیاں بمبوریت، رمبور اور برون کافرستان کہلاتی ہیں مگر کیلاش کے لوگ یہ نام پسند نہیں کرتے، اِن کے نزدیک کافرستان کہنے والے دراصل نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔
ہم الیگزینڈرا ہوٹل کے مہمان تھے اور شام کے کھانے میں اپنے کیلاشی دوست میاں گل سے چکن کڑاہی کی فرمائش کرتے ہوئے بھول گئے تھے کہ اِن کے نزدیک مرغی ممنوع ہے، جیسے شراب ہمارے ہاں حرام ہے۔ اخروٹ کے درختوں کے حصار میں ایستادہ لکڑی کے کمرے میں رات بسر ہوئی اور صبح ہم بشالی کی طرف گئے جہاں عورتیں اپنے مخصوص ایام گزارتی ہیں۔ کراکال گاؤں کے آخر میں کھلے عام رکھے تابوت دوہزار سال قدیم روایات کے تسلسل کی شہادت دے رہے تھے۔ کیلاشی قبرستان کے سامنے تہہ در تہہ بنے گھروندے تھے اور ہم تنگ گلی سے گزر کر زائنہ کے گھر پہنچ گئے۔ سیاسیات میں ایم فل کرنے والی زائنہ اپنے کمرے کی سیاہ دیواروں کو ثقافت کا نام دے رہی تھی۔ میرے سوال پر وہ چونک اٹھی اور کہا کہ“ ہاں بالکل میں روایات کی پابند ہوں۔ گھر میں نہانے کے بجائے بمبوریت ندی پر بنی مخصوص جگہ پر نہاتی ہوں، گھر میں بال نہیں سنوارتی کیونکہ کنگی میں پھنسے بال نحوست پھیلاتے ہیں۔“ میرے لیے یہ حیرانی کی بات تھی کہ چترال یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی جدید دور کی لڑکی ذرا برابر اپنی ثقافت سے منحرف نہیں تھی۔“ زائنہ کیا تم بھی گھر سے بھاگ کر شادی کرو گی؟”میں نے ایک مشکل سوال کردیا۔
”جی بالکل، ہماری روایت میں محبت کی شادی ہوتی ہے اور ہمیشہ بھاگ کر ہی ہوتی ہے“ زائنہ نے تسلی سے جواب دیا اور وہ بولتی گئی۔
”دیکھو، ہمارے کلچر میں زنا یا جسم فروشی نہیں، ہم پسند اور محبت کی شادی کو ترجیح دیتے ہیں اِس لیے خفیہ تعلقات کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی، یہاں پر جبری شادیاں بھی نہیں ہوتیں۔“
”دیکھو، ہمارے کلچر میں زنا یا جسم فروشی نہیں، ہم پسند اور محبت کی شادی کو ترجیح دیتے ہیں اِس لیے خفیہ تعلقات کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی، یہاں پر جبری شادیاں بھی نہیں ہوتیں۔“
مگر کیلاش کے ساتھ فحاشی، جسم فروشی اور عیاشی کی کہانیاں جڑی ہیں؟ میں نے وہ سوال کردیا جو شاید بنتا نہیں تھا۔”کیلاش اقلیت ہیں، اِس لیے ایسی خود ساختہ کہانیاں اقلیتوں کا مقدر ہوتی ہیں حالانکہ اِن سب چیزوں کے لیے کیلاش نو گو ایریا ہے“ زائنہ کے جواب میں اعتماد تھا۔بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کیلاش میں لڑکیوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے، سچ بات تو یہ ہے کیلاشی لڑکیاں ہی نہیں دنیا بھر کی عورتیں بھی محبت کے نام پر دھوکا کھا جاتی ہیں اور یہی کیلاش کی کچھ لڑکیوں کے ساتھ ہوا جو محبت کے نام پر خواب سجائے، تبدیلی مذہب کے عمل سے گزریں اور اِنہیں بیوی بنا کر لے جانے والے خاندان کے سامنے اپنی محبت کا دفاع نہ کرسکے اور کیلاشی لڑکیاں دربدر ہوگئیں۔
زائنہ اپنی روایات، ثقافت اور رسوم کے متعلق بتاتے ہوئے بار ہا آبدیدہ ہوئیں۔ غربت کے باوجود مہنگی رسومات پر عمل کرنا اُن کی مجبوری ہے۔ شادی اور موت، دونوں بہت مہنگے ہیں۔ سال بھر کے تین تہوار صرف موسم کی تبدیلی کا جشن ہیں۔ ”چلم جوش“ کیلاشوں کی عید ہے جو ہرسال 13 مئی سے 16 مئی تک منائی جاتی ہے۔ اِس تہوار پر لڑکیاں ڈھول کی تھاپ پر دائروں میں گھومتی اور گیت گاتی ہیں، یہی اِن کی عبادت ہے جسے ہم کبھی رقص کہتے ہیں اور کبھی مجرا۔ چلم جوش، سردی کے بعد بہار کی آمد کا جشن ہے۔ کیلاشوں کا ایک ہجوم پھول ہاتھ میں لیے امڈ آتا ہے۔ انگوروں کے گچھے بیلوں سے اُتارے جاتے ہیں۔ دائروں میں ہونے والا رقص صرف ذاتی سرشاری کے لیے ہوتا ہے۔یہ جشن عیدین، دیوالی، بیساکھی اور ہولی سے زیادہ جذباتی تھا اور اِس روز ہم بھی اِس جشن کا حصہ تھے۔ چلم جوش کے رقص میں ایک دوسرے کو پسند کرنے والے جوڑے“ اوچال“ کے تہوار پر شادیاں کرتے ہیں۔ اوچال کا جشن 18 اگست سے شروع ہوکر 21 اگست تک منایا جاتا ہے۔ تیسرا تہوار“ چاو موس“ 8 دسمبر سے 22 دسمبر تک رہتا ہے جس میں صحت و سلامتی کی دعائیں کی جاتی ہیں۔ دسمبر میں ہونے والا جشن“ چاو موس“نئے سورج کے پیدا ہونے کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔
اگر کوئی غیر کیلاش لڑکا کیلاشی لڑکی کو پسند کرلے اور لڑکی بھی شادی پر رضا مند ہوجائے تو لڑکی اپنے والدین کو بتا دیتی ہے کہ وہ رات کو بھاگ جائے گی۔ گھر چھوڑنے سے پہلے لڑکی اپنے محبوب کا نام اور گھر کا پتہ والدین کو بتا دیتی ہے۔ پیشگی اطلاع کے باوجود بھی غیرت کے نام پر خون خرابا ہوتا ہے اور نہ ہی پہرے بٹھائے جاتے ہیں۔ کیلاش رواج کے مطابق گھر سے بھاگ جانے والی لڑکی اپنے والدین کا انتظار کرتی ہے اور کسی طرح کا جسمانی تعلق قائم نہیں کرتی۔لڑکی باقاعدہ رسم ہونے تک لڑکے کی ماں یا بہن کے کمرے میں سوتی ہے۔ کیلاش سے آنے والے بزرگ اپنی بیٹی کو اُس کی رضا مندی سے ایک بار واپس گھر لے جاتے ہیں اور شادی کی تاریخ طے کر کے بارات کو کیلاش بلایا جاتا ہے اور پھر روایات کے مطابق رخصتی ہوتی ہے۔مہمانوں کی تواضع بکرے کے گوشت اور پنیر سے کی جاتی ہے۔ بکرے کو ذبح کرتے ہوئے جو خون نکلتا ہے وہی نکاح کا اعلان ہوتا ہے۔ بکرا کیلاش والوں کا ہو تو میاں بیوی میں سے صرف ایک کھاتا ہے اور اگر باہر سے خرید کر لایا گیا ہو تو پھر دونوں کھاتے ہیں۔ شادی کے بعد کیلاش لڑکی جب اپنے شوہر کو میکے لاتی ہے تو دلہن کے ہر رشتہ دار کو دلہا بیس بیس ہزار روپے ادا کرتا ہے اور ایک نئی دیگ تحفے میں دیتا ہے۔
کیلاش لڑکی سے شادی کرنے والا دلہا اگر مسلمان ہو تو وہ لڑکی کو کلمہ پڑھا کر سبھی رسوم و روایات سے منحرف ہو کر بہت سے کیلاشی اخراجات سے بچ جاتا ہے۔ دلہا کیلاشی ہوتو سارا قبیلہ لڑکے کے گھر جمع ہوتا ہے اور ساری برادری تحائف دیتی ہے جسے جہیز کے طور پر دلہن کے سپرد کیا جاتا ہے۔ لڑکی کو میکے سے کم از کم تیس بکریاں اور ایک گائے جہیز کے طور پر ملتی ہے۔ لڑکی کے ماموں کو دلہا ایک بیل یا پھر پچاس ہزار دیتا ہے۔ کیلاش میں شادی شدہ مرد یا عورت کا کسی دوسرے سے ناجائز تعلق ثابت ہو جائے تو جوڑے میں طلاق ہو جاتی ہے اور سابق شوہر کو ملزم مرد وہ تمام اخراجات ادا کرتا ہے جو اُس کی شادی پر خرچ ہوئے تھے۔کیلاش اپنی روایات نبھاہتے ہوئے زمینیں تک سستے داموں بیچ بیٹھے ہیں۔ جدید دور میں بھی روایات سے انحراف گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے اِسی لیے زائنہ تعلیم یافتہ ہو کر بھی اپنی روایات نبھاہ رہی ہے۔ زائنہ نے ہمارے لیے گھر میں چائے صرف اِس ڈر سے نہ بنائی کہ ہم کافر چائے پینے سے انکار نہ کردیں، بازار سے ڈرنک منگوائی گئیں۔ ہم رات گئے کراکال کے بازاروں میں اِس وقت تک گھومتے رہے، جب تک ڈھول پر عبادت بھرا رقص جاری نہ گیا۔