Column

سلام مسکان ….. احمد نوید

احمد نوید

کرناٹک میں مسکان خان کے واقعے کے بعد کچھ مذہبی تحقیق پیش خدمت ہے۔
خدمت خلق کے لیے خود کو وقف کر دینے والی مسیحی راہبہ مدر ٹریسا کو ننگے سر شاید ہی کسی نے دیکھا ہو۔ میں نے بہت کوشش کی لیکن انٹرنیٹ پر تحقیق کے دوران مجھے وہ صرف سفید ساڑھی نما عبایا میں دکھائی دیں۔ اُسی ساڑھی یا عبایا کا پلو سر پر اِس طرح سے رہتا تھا کہ کبھی بھی اُن کا سر ننگا نہ ہونے پایا۔

بدھ مت میں بھی اگر مذہبی پہناوے دیکھے جائیں تو مذہبی خواتین بھی برقعے کی طرح اپنا تمام جسم چھپاتی ہیں۔ حجاب یا برقعے کا تعلق صرف اسلام یا قرآن پاک سے نہیں ہے۔ یہودی مذہبی خاتون کو اگرآپ حجاب یا برقعے میں دیکھ لیں تو یہ فرق کرنا مشکل ہو جائے گاکہ وہ مسلمان ہے یا یہودی۔

حجاب یہودیت میں بھی موجود تھا۔ یہودی مذہب کے آرتھوڈوکس گرواہوں کی بہت بڑی تعدادحجاب پہننے کو”دعوت الٰہی“ قرار دیتی ہے۔ اسرائیل میں یہودی مذہب کی رہنما شخصیت کا دعویٰ ہے کہ حجاب کی روایت یہودی مذہب سے نکلی ہے۔ لہٰذا جو خواتین حجاب پہن رہی ہیں وہ یہودیوں کی نقل کر رہی ہیں اور اُسی شخصیت کا کہنا ہے کہ حجاب پہننے سے خواتین ہراساں ہونے سے بچتی ہیں۔اُنہیں تحفظ ملتا ہے اور جرائم بھی کم ہوتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہودی مذہب میں کچھ فرقے ایسے بھی ہیں جو سر سے پاؤں تک کالے رنگ کا ایسا برقعہ پہنتے ہیں کہ اُن کے اِس سخت ڈریس کوڈ کی وجہ سے اُنہیں یہودی طالبان قرار دیا جاسکتا ہے۔

اب اگر ہم مسیحی راہبوں کی طرف آئیں تو ہر مسیحی راہبہ جسے ہم نن (NUN)کہتے ہیں اُن کا بھی عیسائیت میں ایک مذہبی پہناوا ہے۔

یہ عیسائی مذہبی خواتین دنیا بھر میں اپنے اِسی پہناوے کے ساتھ زندگی گزارتی ہیں۔ گلیوں، بازاروں، سڑکوں، بسوں، ریلوں اور جہازوں میں بھی سفر کرتی ہیں۔ دنیا کو اِن کے مذہبی پہناوے پر اعتراض نہیں۔ اُنہیں کہیں نہیں روکا جاتا۔ تنگ نہیں کیا جاتا، جواب طلب نہیں کیا جاتا پھر بھارت سمیت دنیا بھر میں ہر مسلمان گھرانے کی مسکان خان ہی کیوں جواب دہ ہے؟ اُس کے حجاب یا برقعے پر ہی اعتراض کیوں ہے؟

بھارت سے ہی لی گئی ایک تحقیق کے مطابق وہاں 89فیصد مسلم خواتین، 86فیصد سکھ خواتین اور59ہندو خواتین سر ڈھانپتی ہیں، جو غالباًمذہبی سوچ نہیں بلکہ ایک عام رواج کی وجہ ہے۔ بھارت ہی میں بدھ مت کی (30)فیصد خواتین اور (21)فیصد عیسائی خواتین سر ڈھانپتی ہیں۔ پورے بھارت میں مذہبی عقائد اور رسم و رواج پر چلنے کی شرح مختلف ہے۔ جنوبی ہندوستان جہاں کرناٹک صوبہ بھی آتا ہے وہاں چار میں سے ایک مسلمان خاتون برقعہ یا حجاب پہنتی ہے۔

اگر کسی کو یاد نہیں تو میں یہ یاد دلانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ 2017میں امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کی بیوی میلا نیا ٹرمپ اور بیٹی ایوانکا ٹرمپ جب ویٹی کن سٹی میں پاپ فرانسس سے ملنے گئیں تو دونوں نے اپنے سروں کو ڈھانپ رکھا تھاجبکہ اِس سے قبل بھی کئی ملکوں کی سربراہ شخصیات بشمول ملکہ برطانیہ نے بھی پاپ فرانسس سے ملاقات کے دوران سر کو ڈھانپنا لازمی سمجھا۔

ہندو خواتین بندیا لگائیں، شادی کی علامت کے لیے یا خوبصورتی کی خاطر، ہندو برہمن مرد جینو یعنی ایک سفید دھاگہ جسم کے پا ر پہنیں، سکھ مرد اور خواتین اپنے عقیدے کی علامت کے طور پر کارا یعنی کڑا پہنیں یا کرپان رکھیں۔ عیسائی مرد اور خواتین صلیب پہنیں، ہندو مرد تلک لگائیں۔ سکھ پگڑیاں پہنیں، صد افسوس کہ بھارت میں تمام مذاہب اور اقلیتوں کو تمام رسم و رواج اور عقائد پر چلنے کی اجازت ہے ماسوائے مسلمانوں کے۔

کرناٹک کی مسکان خان کا آخر کیا قصور تھا؟ یہی نا کہ اُس نڈر اور بہادر لڑکی نے ہندو انتہا پسندوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُنہیں للکارہ تھا۔ سلام ہے اِس دلیربیٹی کو۔ جس نے ایک بار ثابت کر دکھایاکہ وہ ٹیپو سلطان کی دھرتی کی بیٹی ہے۔ مسکان کے نعرہ تکبیر پر اُسے صرف بھارت یا پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں سراہا گیا۔ مسکان کمزور، دبے ہوئے مسلمانوں کے لیے جرأت اور بہادری کی علامت بن کر اُبھری ہیں۔ خود مسکان خان کا کہنا تھا کہ اُنہیں جے شری رام کے نعرے لگاتے، ہجوم سے قطعی ڈر محسوس نہیں ہوا اور نہ ہی وہ ایک لمحے کے لیے خوف زدہ ہوئی۔ جب کسی کو مکمل طور پر دیوار سے لگا دیا جائے تو یہی ہوتا ہے، ڈر اور خوف ختم ہو جاتا ہے۔

بھارت میں انتہا پسندی کو لے کر جو مودی کی مجرمانہ خاموشی ہے۔ اُس روئیے نے انتہا پسندوں کو شے دی ہے۔ یہ انتہا پسند اتنے دبنگ ہو چکے ہیں کہ اُن سے وہ مثبت سوچ رکھنے والے طبقے، جو اُنہیں اچھا نہیں سمجھتے، وہ بھی ڈر نے لگے ہیں حالانکہ آر ایس ایس اور اِن انتہا پسندوں کی تعداد مثبت سوچ رکھنے والوں سے زیادہ تو نہیں ہو سکتی۔ لیکن دنیا بھارت میں ایک مکمل خاموشی دیکھ رہی ہے۔ جس کی وجہ سے انتہا پسندوں کو بھارت بھر میں شے مل رہی ہے۔ مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کی زندگی اجیرن کرنے والے انتہا پسند ہندو ہر روز کوئی نیا بہانا گھڑ کر ہجوم کی صورت میں جمع ہو جاتے ہیں۔ دنیا والے اور خاص طور پر مسلمان ممالک یہ امتیازی سلوک دیکھ رہے ہیں مگر بے حس اور بے ضمیر اسلامی دنیا اِن زیادتیوں پر کچھ کہنے کو تیار نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button