لندنٜ ایک بہت بڑے مطالعے میں دنیا کے مشہور دریائوں کا جائزہ لیا گیا ہے اور معلوم ہوا ہے کہ عوام اور زراعت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھنے والے متعدد مشہور دریا طرح طرح کی ادویاتی آلودگی کے شکار ہیں۔ اس فہرست میں دریائے سندھ بھی شامل ہے جس کے آبی ذخائر میں اس سے پہلے بھی اینٹی بایوٹکس کی بڑی مقدار کا انکشاف ہوا تھا۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف یارک کے پروفیسر جان ولکنسن اور ان کے ساتھیوں نے دنیا بھر کے دریائوں میں ادویاتی آلودگی پر تحقیق کا پروگرام شروع کیا ہے۔
اس کے تحت اب تک 196ممالک میں سے 104ممالک کا ڈیٹا جمع ہوچکا ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ سب سے زیادہ ملک شمالی امریکہ اور مغربی یورپ کے ہیں جبکہ دیگر خطوں میں تحقیق کی ضرورت ہے۔ عالمی دریا¶ں میں ادویاتی آلودگی کی نگرانی نامی اس بڑے پروگرام کے لئے 104ممالک کے 258دریائوں کے کل 1052نمونے جمع کئے گئے ہیں۔
ڈاکٹر جان کے مطابق یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جسے بری طرح نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن اس منصوبے سے دنیا بھر کے دریائوں کا مفصل جائزہ سامنے آئے گا۔
اس ضمن میں لاہور کے قریب سے گزرنے والے دریا میں آلودگیوں کو مجموعہ 70.8مائیکروگرام فی لیٹر نوٹ کیا گیا جسے کیومیولیٹوو فارما سیوٹکل کنسنٹریشن کا نام دیا گیا ہے۔
ماہرین نے اس آلودگی کو انسانوں، آبی جانداروں اور زراعت کے لیے خوفناک قرار دیا ہے۔ مجموعی طور پر 25 فیصد نمونے آلودگی کے معیارات سے بھی بلند ہے جو سب سے خطرناک امر ہے۔
اس آلودگی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دریائوں کے پاس ادویاتی فضلہ بے دریغ پھینکا جارہا ہے۔ دوسری جانب نکاسی آب کا نظام بہت ہی خستہ ہے ۔
اس کے علاوہ کئی ادویاتی ادارے اپنا فالتو مواد اور کیمیکل دریا میں بہا رہے ہیں۔ پانی کے نمونوں میں مرگی کے خلاف دوائی مرکب کاربا میزیپائن، ذیابیطس کی دوا میٹ فارمِن اور کیفین وغیرہ موجود ہے۔
اس سے قبل 2019میں ایک اور تحقیق میں کہا گیا تھا کہ پاکستان، بنگلہ دیش، کینیا، گھانا، نایئجیریا اور یورپ میں آسٹریا وہ ممالک ہے جہاں کے دریائوں میں اینٹی بایوٹکس کی شرح بہت زیادہ ہے اور بعض مقامات پر تو یہ مقررہ مقدار سے 300گنا زائد ہے۔ یہ تحقیق بھی یونیورسٹی آف یارک نے ہی کی تھی۔