Column

پیر نہیں،ایک مُرید کی تلاش ….. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

خالق کائنات نے انسان کو بہترین تقویم پر پیدا کیا پھر اِسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا مگرانسان خطا کا پُتلا نظر آتا ہے، خطاﺅں پر خطائیں کیے چلاجاتا ہے۔ شاید اِس لیے کہ اُسے اپنے رب سے بخشش کی اُمید، نا اُمید نہیں ہونے دیتی، خطا کے پُتلوں کی مونث کو پُتلیاں کہا جاسکتا ہے، یہ پُتلے اور پُتلیاں زندگی کے ہر شعبے کی طرح میدان سیاست میں بھی خوب قدم جمائے نظر آتے ہیں، پُتلوں اور پُتلیوں کی دیکھا دیکھی اب تتلیاں بھی مقابل نظر آتی ہیں، تتلیوں کا کام توآپ جانتے ہی ہیں وہ بہاروں میں باغوں کی رونق دوبالا کرتی ہیں، ہر پھول کے گرد منڈلاتی ہیں، ہر گُل کا منہ چومتی ہیں، ایک کا لمس دوسرے تک پہنچاتی ہیں یوں اُن کی نمو اپنا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ وہ کچھ بھی کرجاتی ہیں جنہیں ہماری آنکھ نہیں دیکھ پاتی، سب کچھ چپکے چپکے چوری چوری ہوجاتا ہے، خطا کے پُتلوں، پُتلیوں اور تتلیوں،سب کو ایک پیر ِ کامل کی تلاش رہتی ہے خواہ وہ خود کسی بلند ترین منصب پر کیوں نہ بیٹھے ہوں۔ پاکستان کی سیاست میں پیروں کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے، اِن کا اثررسوخ ، اِن کی خوشنودی، انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ سیاست دان اور حکمران اپنی مقبولیت و طاقت میں اضافے کے لیے اِن کے در پر حاضری دیتے نظر آتے ہیں، پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین اور کامیاب ترین صدر جنرل محمد ایوب خان کا پیر صاحب دیول شریف اور پیر صاحب مانکی شریف سے گہرا تعلق تھا، جنرل ایوب خان باقاعدگی سے اُن کے یہاں حاضری تو نہ دیتے تھے مگر پھر بھی دُنیا اُن کے تعلق سے باخبر تھی اُن کے زمانہ اقتدار میں اُن گدیوںکو اہمیت حاصل رہی۔

جنرل ایوب خان کے بعد جنرل یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالا۔ اِن کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ضرور تھا لیکن وہ خود مذہب اور اُس کی تعلیمات سے بہت دور نظر آئے، ابتداءمیں اُنہوں نے تاثر دیاکہ وہ بہت اصول پسنداوراصولوںپر کاربند رہنے والی شخصیت ہیں اور جو کہہ رہے ہیں اِس سے سرِمو انحراف نہ کریں گے، نہ کسی کو کرنے دیںگے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اُن کی شخصیت پرپڑے پردے ہٹے تو اندر سے ایک ایسا شخص برآمد ہوا جس کا کبھی کسی نے تصور نہ کیاتھا، وہ خاندان کے اندر مذہبی تقریبات میں شرکت کرتے اوربس! اُنہوں نے کسی کو پیر نہ مانا ،نہ ہی اُس کی ہدایت و مشورے پر کبھی عمل کیا، ایک وقت ایسا آیا جب وہ اپنی مُرید خواتین کے مکمل زیرِ اثرآگئے، اِن سب کا تعلق شوبز سے تھا، بیشتر ناچنے اور گانے والیاں تھیں جو فقط شام ڈھلنے کا انتظار کرتی تھیں اور غروب آفتاب کے فوراً بعد محفل آراستہ ہونے کے بعد یحییٰ خان کو اطلاع کردیتیں جو اُن سے زیادہ بے تابی کے ساتھ رات کے بھیگ جانے کے منتظر رہتے، وہ اپنے زمانے کے راجہ اِندر تھے، وہ اور اُن کی رانیاں سپیدہ سحر نمودار ہونے تک گھنگھروں کی جھنکار، طبلے کی تھاپ اور ہار مونیم کی آواز میں کھوئے رہتے حتیٰ کہ ملک دولخت ہونے کا وقت آگیا مگر انہیں ہوش نہ آیا۔
بھٹو صاحب دینی تعلیمات کی طرف رحجان نہ رکھتے تھے، نہ ہی اِنہیں پیروں سے رغبت یا اُن کی طاقت کا احساس تھا، وہ اپنے آپ کو کامل ترین سمجھتے تھے اور گمان رکھتے تھے کہ اِنہیں کسی کی نہیں بلکہ ہر شخص کو اُن کی ضرورت ہے، وہ چاہتے تھے کہ اُن کے دوست، پارٹی کے لوگ، وزیر، مشیر سب بیعت کی حد تک اُن کی قیادت کو تسلیم کریں اور اُن کے وفادار رہیں، وہ پہلی مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد ایک مرتبہ سیاسی مصلحت اور ساتھیوں کی درخواست پر حضرت شہبازقلندرؒ کے مزار پر گئے پھر کبھی کہیں نہ گئے، زوال پذیر ہوئے تو ایک مرتبہ شیخ علی ہجویری المشہورحضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر گئے، وہ مقدمہ قتل میں گرفتار ہوئے، اُن کا مقدمہ لاہور ہائیکورٹ میں تھا، ایک مرحلے پر اُنہیں اپنی صفائی پیش کرنے کا موقعہ دیاگیا ، وہ روسٹرم پر آئے، اُنہوں نے شُستہ انگریزی میں طویل تقریر کی، یہ سیاسی تقریر تھی اِس کا اُن کے مقدمہ قتل سے کوئی تعلق نہ تھا، اِس تقریر کے دوران اُنہوں نے سندھی زبان میں ایک رباعی پڑھی جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ لعل شہبازقلندرؒ کے مرید ہیں، وہ کسی سے نہیں ڈرتے حتیٰ کہ اِنہیں موت یعنی سزائے موت کا بھی کوئی خوف نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جنرل ضیاءالحق نے اقتدار سنبھالا، وہ بچپن و جوانی کے زمانے ہی سے مذہبی رحجانات کے حامل تھے، نماز پنجگانہ کے علاوہ تہجد گذار تھے، اِن کی زندگی دنیاوی آلائشوں سے پاک تھی، زندگی بھر اِن پر کسی بھی قسم کا کوئی الزام نہ لگایا جاسکا، وہ خود تو کسی کے باقاعدہ مُرید نہ تھے لیکن ہر دین دار اور صاحب ِ کردار کا اِسی طرح احترام کرتے تھے جیسے وہ اُن کا پیر ہو، دینی رحجانات رکھنے والے کروڑوں افراد اِنہیں اپنا پیر مانتے تھے جبکہ اِنکساری اِن کی شخصیت کا بہت بڑا وصف تھی، بعد از شہادت اُن کے پیچھے نہ کوئی لمبی چوڑی جائیداد تھی نہ کوئی بینک بیلنس۔ اُنہوں نے زندگی بھر اپنے دونوں بیٹوں اور عزیزواقارب کو اقتدار اور اُس کے فوائد سے بہت دور رکھا، اُن کے بڑے بیٹے اعجاز الحق ایک بینک میں ملازمت کرتے تھے جبکہ چھوٹے بیٹے انوار الحق پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے، دونوں کی زندگیاں اپنے والد مرحوم کی طرح سیدھی و سادی ہیں، دونوں نمودو نمائش سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے، جنرل ضیاءالحق کی شہادت کے بعد بینظیر بھٹو اقتدار میں آئیں، اقتدار کے لیے اِنہیں جس تنکے کا سہارا بھی مل سکتا تھا اُنہوں نے لیا۔ اِنہیں بتایاگیا پر تنکہ شریف کی خدمت میں حاضری دیں، اگر اُنہوں نے آپ کی پشت پر تین چھڑیاں لگادیں تو آپ وزیراعظم بن جائیں گی، حُسنِ اتفاق ایسا ہی ہوا وہ وزیراعظم بن گئیں، زوال پذیر ہوئیں تو پھر پیر تنکہ شریف کی خدمت میں حاضری دی، دوبارہ وزیراعظم بن گئیں، لیگی راہنما میاں نوازشریف کو یہ واقعہ بتایاگیا اور کہا گیا کہ وہ بھی پیر تنکہ شریف کے پاس حاضری دیں، اُنہوں نے بھی وہاں متعدد مرتبہ حاضری دی لیکن اِس سے قبل وہ علامہ طاہر القادری کے ساتھ عقیدت کے رشتے میں منسلک ہوچکے تھے، دو مرتبہ وزیراعظم بننے تک یہ رشتہ برقرار رہا پھر کسی وجہ سے فاصلے بڑھ گئے، اُنہوں نے مریدی چھوڑ دی اب وہ خود بہت بڑے پیر ہیں۔ جنرل مشرف کیا تھے ، شاید کوئی نہ جان سکے، لیکن اُنہوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو ایک ماڈرن مغرب زدہ شخص کے روپ میں پیش کیا، اِسی سبب وہ مغرب کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور دس برس اقتدار میں دھڑلے سے رہے۔
آصف علی زرداری صدر مملکت کے عہدے پر فائز ہوئے تو سننے میں آیا کہ وہ بھی صاحب ِ پیر ہیں، ہر اہم مشورہ اپنے پیر صاحب سے ضرور کرتے ہیں بالخصوص جب اُن کی کشتی منجھدار میں ہو، پیر صاحب کا اِسم گرامی اعجاز شاہ بتایا جاتا ہے جو ایوان ِ صدر کے علاوہ آصف علی زرداری کے اسلام آباد والے گھر میں طویل عرصہ تک نظر آئے۔
وزیراعظم عمران خان کے دور نزدیک کوئی پیر صاحب نظر نہیں آتے وہ ایک دومرتبہ پاکپتن حاضری دیتے نظر آئے، خاور مانیکا کہتے نظر آتے ہیں کہ خان صاحب کا تعلق اُن کے پیر گھرانے سے ہے، یعنی وہ اِس پیر گھرانے کے مُرید ہیں جبکہ عمران خان صاحب کے حلقہ ارادت میں مرد مُریدوں کی بجائے خواتین کی ایک خاصی تعداد اُن کے سٹائل میں تسبیح پھیرتی نظر آتی ہے، مریم نواز کے شوہر کیپٹن صفدر سے پوچھا گیا کہ آپ کی بیٹی کی شادی میں کئی ارب روپئے کا خرچ ہوا یہ دولت کہاں سے آئی، اُنہوں نے جواب دیا کہ اُن کا تعلق پیروں کے گھرانے سے ہے یہ سب اخراجات ایک مُرید نے کیے ہیں، اُس روز سے مجھے بھی کسی ایسے ہی مُرید کی تلاش ہے جو مجھ پر اربوں خرچ کرسکے کیوں کہ میرا تعلق بھی ایک پیر گھرانے سے ہے جس کی تعلیم یہ تھی کہ جو مُرید دروازے پر آئے اِس کی خوب خاطر مدارت کرو اور جاتے ہوئے زادِ راہ دے کر رخصت کرو، یوں زندگی بھر جو کمایا اپنے مُریدوں پر لٹادیا مگر اب میں نے یوٹرن لے لیا ہے، متمول مُرید رابطہ فرمائیں مجھے ایک ایسے مُرید کی تلاش ہے جو فنانشلی خوب ساﺅنڈ ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button