Column

امنِ عالم کو لاحق خطرات …… محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

لمحہ موجود میں دنیا کی اکلوتی طاقت ،اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے کیا کیا جتن کر رہی ہے،اِس کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے کہ اپنے مد مقابل دو قوتوں کو زیر کرنے کی خاطر کیا کیا چالیں چلی جا رہی ہیں،کیسے کیسے پینترے بدلے جار ہے ہیں لیکن معاملات ہیں کہ مسلسل ہاتھوںسے پھسلتے نظر آ رہے ہیں۔ غیب کا علم تو صرف اللہ رب العزت کی ذات جانتی ہے کہ مستقبل میں کیا ہونا ہے البتہ تاریخی حوالوںاور قانون قدرت کے اصولوں کے مطابق ،لافانی ذات صرف اور صرف اللہ ہی کی ہے اور باقی سب دنیاوی طاقتوںکو فنا ہونا ہے،دوام بھی فقط اِسی رب کریم کی ذات کو ہے ۔ انسان اپنے اقتدار کے دوام کی کوششیں کر سکتا ہے جبکہ یہ اقتدار بھی فقط انسانی اجسام پر ہے کہ بحیثیت حکمران،جو قوانین بنائے جاتے ہیں،اِن کا مقصد انتظامی ہوتا ہے،دلوں کو تسخیر کرنے والوں کو اقتدار یا اختیار کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی اور عوام الناس کی بہتری و بھلائی چاہنے والے،اِس مقصد کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کرنے والے تاقیامت دلوں پر حکومتیں کرتے ہیں۔ دلوں کو مسخر کرنے والے کبھی بھی غیر اصولی یا غیر منطقی بات نہیں کرتے جبکہ اجسام پر حکومت کرنے والوں سے اصولوں کی پیروی کرنا ہی عبث ہے کہ وہ ہوس اقتدار میں کچھ بھی کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں کہ اِن کا واحد اصول ہی یہ رہتا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔دہرے معیار کے حامل یہ حکمران ،عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے ایسی لچھے دار باتیں کرتے ہیں کہ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اِن سے بڑا عوامی ہمدرد دنیا میں ہو ہی نہیں سکتا لیکن پس پردہ اِن کے گھناو ¿نے عزائم ہی درحقیقت عوام کی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ ایک طرف یہ لیڈرز امنِ عالم کی بات کرتے ہیں لیکن دوسری طرف پس پردہ ایسی گھٹیا حرکات میں ملوث رہ کرامنِ عالم کو خود داو ¿ پر لگاتے ہیںوگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ واقعتاً امنِ عالم کے قیا م میں مخلص ہوں اور امن قائم نہ ہوسکے۔بیک وقت ظالم و مظلوم کے ساتھ کھڑے ہو کر امن کا قیام کس طرح ممکن ہے؟یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمسائے میں آگ بھڑکا کرخود اِس تپش سے محفوظ رہ سکیں؟یہ کیسے ممکن ہے کہ ناانصافی کا بازار گرم ہو اور امن قائم کرنے کی خواہش بھی موجود ہو؟یہ کیونکر ممکن ہے کہ امنِ عالم کے ضامن معاہدوں سے یکطرفہ روگردانی کی جائے اور اِس کے ردعمل سے بچا بھی جا سکے؟جیو اور جینے دو کی گردان بھی ہو لیکن مخالفین کا گلا بھی دبایا جائے،اِن کا سانس بھی روکا جائے اور انہیں جینے کے لیے بھی کہا جائے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوئی اورعالمی برادری ،اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر،اِن دو طاقتوں کے درمیان تقسیم ہوگئی۔

دونوں عالمی طاقتوں نے اپنا اثرورسوخ قائم رکھنے کے لیے اپنے حلیفوں کو ہر صورت مضبوط رکھنے کی کوششیں کی،امریکہ بہادر اِس ضمن میں زیادہ کامیاب رہا کہ اس نے نیٹو جیسی تنظیم قائم کر کے ،سوویت یونین کے گرد گھیرا تنگ کئے رکھا۔ دوسری طرف سوویت یونین یا زار روس کے ماضی پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ امریکہ کی نسبت سوویت یونین کا میدان جنگ میں ریکارڈزیادہ بہتر رہا ہے ہے لیکن بدقسمتی سے سوویت یونین افغانستان میں بری طرح شکست کھا گیا ۔فتح و شکست تو جنگ کا حصہ ہوتی ہی ہے ،اصل مشکل اِس وقت سامنے آئی جب سوویت یونین،اِس جنگ کے بعد اپنی یونین کو قائم رکھنے میں ناکام رہا اور دراصل یہی سوویت یونین کی اصل شکست تھی۔ دوسری طرف گو امریکہ نے بھی آج تک میدان جنگ میں کوئی واضح فتح تو حاصل نہیں کی لیکن دنیا کے نقشے پر،اِس کی جغرافیائی حدود آج بھی پہلے کی طرح ہی متعین ہیں اور اِن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔مزید یہ کہ امریکہ ہنوز معاشی طور پر ایک مضبوط ملک تصور ہوتا گو کہ پس پردہ اِس کی تمام تر معیشت قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہے لیکن اِس کا تاثر آج بھی ایک کامیاب معیشت کے طور پر ہی ہوتا ہے۔ اِس پس منظر میں اگر امریکہ کی اپنی چودھراہٹ کو چوٹ پہنچتی ہے تو اِس کی رہی سہی ساکھ کو زمین بوس ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی ،اپنی اِسی ساکھ کو بچانے کے لیے امریکہ اپنی بھرپور کوششوں میں مصروف ہے لیکن تاحال جو زمینی حقائق ہیں،اِن کے مطابق روس و چین امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے ہیں۔ امریکہ نے اپنی بھرپور کوشش کر کے دیکھ لی کہ کسی طرح چین اور روس کے درمیان اختلافات کا بیج بویا جا سکے،لیکن اِس میں ابھی تک امریکہ کو کوئی کامیابی نہیں ہوئی تو دوسری کوشش کے طور پر امریکہ اِس کوشش میں ہے کہ اِن دونوں ممالک کو الگ الگ الجھا سکے تا کہ کم ازکم یہ دونوں ممالک بیک وقت اِس کے سامنے نہ آسکیں۔اِس مقصد کے لیے چین کو ایک طرف بھارت کے ساتھ الجھایا گیا ہے تو دوسری طرف تائیوان کے معاملے پر غیر یقینی کی صورتحال میں رکھ کر چین کو الجھانے کی کوششیں ہیںلیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ چین اِن دونوں محاذوں پر نہ تو الجھا اور نہ ہی پریشان ہے بلکہ اِس کے برعکس کئی ایک مواقع پر امریکہ کو اپنے بیانات واپس لے کر سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
روس کے حوالے سے امریکی کوششیں دن بدن تیزی اختیار کر رہی ہیں اور روس کا ہمیشہ سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ افغان جنگ کے بعد آزاد ہونے والی اِس کی ریاستوں سے امریکہ دور رہے،جبکہ دوسری طرف امریکہ مسلسل اِس کوشش میں ہے کہ کسی طرح اِن ریاستوں تک امریکی رسائی ہو جائے۔اِس وقت بھی یوکرائن سب سے زیادہ خبروں میں ہے کہ روسی صدر پیوٹن کا یوکرائن کے حوالے سے انتہائی سخت مو ¿قف سامنے ہونے کے باوجود امریکہ یوکرائن کو نیٹو کا اتحادی بنانے کے درپے ہے،اور مسلسل روس کو انگیخت کر رہا ہے۔ امریکی صدر بائیڈن اور روسی صدر پیوٹن کی یوکرائن و دیگر معاملات پر ایک سے زائد آن لائن میٹنگز ہو چکی ہیں لیکن روسی صدر پیوٹن کسی بھی صورت اپنے سخت مو ¿قف سے ہٹنے کے لیے تیار نہیں دوسری طرف امریکہ بہادر،یوکرائن کے ساتھ مشرقی یورپ کی نیٹو حلیف ریاستوں میں اپنے فوجی دستوں کے ساتھ بھاری اسلحہ منتقل کر چکا ہے۔ روسی صدر کے مو ¿قف کو سامنے رکھتے ہوئے یہ حقیقت واضح ہے کہ آزاد ہونے والی ریاستوں کو روس دوبارہ اپنے ساتھ ملانے کے لیے پر تول رہا ہے ،جو یقینی طور پر کسی بھی آزاد ریاست کی خودمختاری پر حملہ ہی تصور کیا جا سکتا ہے،لیکن بحیثیت عالمی طاقت اور موجودہ صورتحال کے پیش نظر اقوام عالم بھی روس کو اِس اقدام سے باز نہیں رکھ سکتے۔
کشیدگی کے اِس ماحول میں یورپ بھی واضح طور پر دو حصوں میں بٹ چکا ہے کہ امریکہ نے جو حرکت فرانس کے ساتھ کی ہے،اِس کے بعد فرانس ،امریکہ سے سخت ناراض ہے جبکہ جرمنی کے اپنے مفادات روس سے وابستہ ہیں،جس کی بنیاد پر جرمنی دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی کھل کر نہیں جاسکتا، تاہم جرمنی و فرانس ،امریکی توسیع پسندی کے حق میں بھی نہیں۔امریکی یکطرفہ کارروائیاں بہر طور خطے میں حالات کو سنگین تر کر رہے ہیں،کہ امریکی فوج و بھاری اسلحہ کے مشرقی یورپ میں اترنے کے بعد، روس کے لیے اِس سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں ہو گا اور لامحالہ روس کو بھی اپنی فوج(جو پہلے سے ہی متصلہ ریاستوں میں موجود ہے)میں اضافہ کرنا پڑا کرے گا۔ امریکہ کے بحری جہاز بھی ،مسلسل پانیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے روس کے پانیوں میں آ چکے ہیں لیکن روس کی بحری فوج نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے،اِن پر حملہ کرنے کی بجائے،اِن کو واپس جانے پر مجبور کیا ہے۔مختلف محاذوں پر روس و امریکی فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہیں اور کسی چھوٹی سی غلطی سے امنِ عالم کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button