Column

عمران حکومت کو ختم کرنے کی ایک اور کوشش …. علی حسن    

 علی حسن
اقتدار پر جائز و نا جائز طریقوں سے قبضے کی داستانیں بتاتی ہیں کہ مملکتیں کس کس انداز میں ڈھیر ہوئی ہیں۔ خود پاکستان کی مملکت بھی 1971 میں آپس کی کشمکش کی وجہ سے کتنی بڑی خون زیری سے گزرنے کے بعد دو لخط ہو ئی تھی۔ یہ تو ابھی کی یعنی پچاس برس قبل کی بات ہے۔ عمران خان نے 2018 کے انتخابات کے بعد حکومت سنبھالی لیکن اِن کی حکومت کو قدم قدم پر جس انداز میں رکاوٹوں کا سامنا رہا وہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ سیاسی مبصرین کے خیال میں عمران خان نے بھی نواز شریف حکومت کے خلاف اسلام آباد میں جو دھرنا دیا تھا وہ ووٹ کے ذریعے قائم ہونے والی حکومت کو گھر بھیجنے کا آئینی اور درست طریقہ نہیں تھا۔ ابھی عمران حکومت کے لیے ایک سال سے زائد عرصہ باقی ہے لیکن اِن کی حکومت کے خلاف چار سال سے بر سرپیکار مخالف سیاسی جماعتوں اور قوتوں نے تحریک عدم اعتماد پیش کر کے عمران حکومت کو ختم کرانے کا اعلان کیا ہے۔ آصف زرداری، نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان ایک بار پھر ”حکومت گھر بھیجو“ کھیل میں مصروف ہو جائیں گے۔ اِن کے خیال میں نتیجہ اِن کے حق میں نکلے گا۔ عمران حکومت کے وزراء کا خیال ہے کہ تحریک عدم اعتماد ناکامی سے دوچار ہوگی۔ وزیر حضرات تو سرکاری خزانے پر انحصار کرتے ہیں لیکن مخالفین اپنے ذرائع پر یقین رکھتے ہیں۔
اگر فرض کر لیا جائے کہ عمران حکومت کا خاتمہ ہو بھی جاتا ہے تو اِس اقتدار سے عمران مخالفین کو کیا ملے گا؟ نواز شریف اپنے خلاف فیصلوں میں تبدیلی چاہتے ہیں، وہ پاکستان واپس آنا چاہتے ہیں اور ایک بار پھر تباہ شدہ معاشی ملک پاکستان پر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں۔ پارسی اپنے مردہ لوگوں کی لاشوں کو ایک ایسے ٹاور پر رکھ دیتے ہیں کہ گدھ نوچ نوچ کر کھا جاتے ہیں اور انسانی ہڈیاں ٹاور کے جنگلے میں گر جاتی ہے۔ پاکستانی سیاست دان پاکستان کو کسی ٹاور پر رکھ دینا چاہتے ہیں؟ اگر نواز شریف خود کچھ نہ کر سکے تو اپنی بیٹی مریم کو وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ خواب اپنے آخری دور اقتدار سے دیکھ رہے ہیں۔کیا خواب کی تعبیر ہر بار وہ ہی نکلتی ہے جو آپ چاہتے ہیں؟ جنرل جیلانی، جنرل ضیاء الحق، جنرل حمید گل، وزیر اعظم محمد خان جونیجو، آئی جے آئی کے وزارت عظمی کے ایک اور امیدوار غلام مصطفے جتوئی کے سہارے مواقعہ میسر ہو جاتے ہیں لیکن ہر بار ایسا نہیں ہوتا۔ وقت کی گردش خواہشوں پر چھا جاتی ہے اور دھول بھی ڈال جاتی ہے۔
آصف علی زرداری وفاق میں حکومت کا خواب دیکھ رہے ہیں اور اپنے اکلوتے بیٹے بلاول کو پاکستان کا وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا حادثات ہر بار اِسی طرح ہوتے ہیں جس طرح مرحومہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ پیش آنے والے حادثہ میں ہوا تھا؟ آصف زرداری کو تو خوابوں میں بھی علم ہی نہیں تھا کہ وہ صدر بن جائیں گے۔ آصف زرداری تو مجلس عاملہ میں مخدوم امین فہیم کو وزیر اعظم بنوانا چاہتے تھے جس کا واضح الفاظ میں اُنہوں نے اعلان بھی کر دیا تھا لیکن بعد میں خواہش کی وجہ سے وہ خود صدر بن گئے۔
یہ خواہشیں بھی عجیب نوعیت کی حامل ہوتی ہیں۔ ایوب خان کو تو مدت ملازمت میں توسیع ہی نہیں مل رہی تھی لیکن وزیر اعظم فیروز خان نون کو اِس وقت کے صدر اسکندر مرزا نے مجبور کیا۔ ایوب خان توسیع ملازمت کی خواہش لے کر نکلے اور صدر پاکستان بن گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی خواہش تھی کہ ِانہیں اقوام متحدہ کی اسمبلی میں پاکستان کے وفد کے ساتھ جانے کی اجازت مل جائے جس کے لیے انہوں نے اسکندر مرزا پر اثر و رسوخ استعمال کیا۔ جب اِس وفد میں انہیں شامل کر لیا گیا تو انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب اِنہیں وزیر خارجہ مقرر ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ اِن کی خواہش نے اِن کا ساتھ دیا۔ اِس وقت تو ایوب خان کی حکومت نہیں تھی۔ بعد میں ایوب خان نے جب اقتدار پر قبضہ کر لیا تو سندھ سے بھٹو کو مرکزی کابینہ میں شامل کر کے وزیر تجارت مقرر کیا گیا، بعد میں تو سیاست ایسے ڈگر پر چلی کہ بھٹو وزیر اعظم مقرر ہو گئے۔
یہ خواہشیں ہی ہیں کہ شہباز شریف ہوں یا آصف زرداری، چودھری برادران کے چکر لگا رہے ہیں۔ چودھری،آصف زرداری کو تو صاف الفاظ میں منع کر چکے ہیں کہ وہ عمران حکومت کے خلاف کسی تحریک عدم اعتماد میں حکومت مخالفین کے ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں۔ آصف کے بعد شہباز شریف اِس گھر کے در پر پہنچ گئے جہاں جانے سے تو اِن کے بڑے بھائی نواز شریف بھی انکاری تھے۔ لیکن خواہشیں انسانوں کو نامعلوم کہاں کہاں لے جاتی ہیں۔ عمران خان کو گھر بھیجنے کی خواہش اِن کے مخالفین کے دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد کیا بنے گا؟ پاکستان میں جب جب حکومتوں کو غیر آئینی طریقو ں سے گھر بھیجا گیا ہے اِن کا نتیجہ بہتر نہیں بر آمد ہوا۔ کیا اب حالات میں کوئی ایسی تبدیلی آگئی ہے کہ ماضی میں حکمرانی کرنے والے سیاست دان کسی بھی حوالے سے اِس ملک کی بھلائی کے لیے کچھ کر سکتے ہیں؟ خوابوں اور خواہشوں کے پیچھے بھاگنا نہیں چاہئے۔ ضروری نہیں کہ خوابوں کی تعبیر آپ کی خواہشوں کی روشنی میں ہی ہو سکے۔
کیا مریم یا بلاول اِس ملک کے لیے کسی نتیجہ خیز فائدے کا سبب بن سکتے ہیں۔ ہوا مخالف ہے، معاشی حالات کسی کے قابو میں نہیں آرہے۔ ملک کے ہر طریقہ کے اخراجات ملک کی آمدنی سے مطابقت نہیں رکھتے اِسی لیے حکومتیں آئی ایم ایف سمیت تمام اداروں سے اِن کی شرائط پر قرضے حاسل کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن ایسے کب تک چلے گا؟ مریم یا بلاول اپنی تقاریر میں خواہ کچھ ہی کیوں نہ کہیں لیکن اِن کے کہنے سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ سوال یہ نہیں ہے کہ وہ کیا کہتے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیا کر سکتے ہیں۔ کچھ کرنے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں۔ در آمدات کا حجم بڑھ رہا ہے اور بر آمدات سکڑ رہی ہیں۔ جو سیاست دان یا سیاسی جماعت بر آمدات میں اضافہ کرسکے گی وہ ہی حکمرانی کی اہل ٹھہرے گی باقی تو لارہ لپا لالی پاپ ہی رہے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button