Column

بزنس ہو رہاہے۔۔۔؟؟ ….. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان
2016 میں، میں نے(لالہ)رحمت شاہ آفریدی سے درخواست کی کہ وہ میرے پروگرام ”فیس ٹو فیس ودکاشف بشیر خان“ میں بطور مہمان شخصیت تشریف لائیں اور وہ تمام کرپشن کی داستانیں (جو وہ فرنٹیئر پوسٹ میں نوے کی دہائی سے بھی پہلے چھاپتے رہے) میں سے کچھ کا میرے پروگرام میں انکشاف کریں۔ آزادی صحافت پر جو ظلم نواز شریف نے صحافیوں کو خرید کر کیا تھا اِس سے بھی بڑا ظلم اِس نے رحمت شاہ آفریدی ایڈیٹر اِن چیف فرنٹیئر پوسٹ کو قید کروا کر کیا۔ دراصل اِس دور میں رحمت شاہ آفریدی کو مسلسل تین ماہ سے پیغامات بھیجے جا رہے تھے کہ وہ آصف علی زرداری کے خلاف اپنے اخبار میں لکھیں کہ وہ منشیات کے دھندے میں ملوث ہے۔(یہ وہ دور تھا جب نواز شریف جعلی دو تہائی اکثریت کی حامل حکومت کا سربراہ تھا اور اپنے فرنٹ مین سیف الرحمان کو احتساب بیورو کا سربراہ بنا کر اپنے مخالفین بالخصوص محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف بدترین سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہا تھا)رحمت شاہ آفریدی کے ایسا کرنے سے مسلسل انکار پر نواز شریف اینڈ کمپنی نے گھناؤنا کھیل کھیلا اور رحمت شاہ آفریدی کو منشیات کے مقدمے میں گرفتار کروا کر حق سچ بولنے والے صحافی اور اِس کے اخبار فرنٹیئر پوسٹ کو بند کروانے کے ایجنڈے پر کام شروع کردیا۔ایک ایسا اخبار کہ جس نے 2015 میں پانامہ پیپرز میں چھپنے والا تمام مواد 90کی دہائی میں بدترین حالات میں اپنے اخبار فرنٹیر پوسٹ میں شائع کیا تھا، کو اب پابند سلاسل کر کے اِس کے خلاف منشیات کے مقدمات دائر کر دیے گئے تھے۔ محترمہ بینظیر بھٹو (جو بدترین ریاستی انتقامی کارروائیوں کی وجہ سے پہلے ہی بیرون ملک جا چکی تھیں) نے لندن اور یورپ میں اِس انتقامی گرفتاری کے خلاف بھرپور احتجاج کیا اور احتجاجی ریلیوں کی قیادت بھی کی تھی۔رحمت شاہ آفریدی کو عالمی سطح پر”ضمیر کا قیدی“ قرار دیا گیا تھا۔
شریف میڈیکل کمپلیکس کے نام پر1997 میں 426 بی ایم ڈبلیو ڈیوٹی فری امپورٹ کر کے مارکیٹ میں فروخت کرنے کی خبر دستاویزات کے ساتھ شائع کرنے کی سزا رحمت شاہ آفریدی کو دی جا رہی تھی۔رحمت شاہ آفریدی نے فرنٹیئرپوسٹ میں اِن گاڑیوں کو ڈیوٹی فری کلیئر کرنے کے لیے ایک دن کے لیے(اس وقت کا سی بی آر) ایف بی آر کا جاری کردہ ایس او آر بھی اخبار میں چھاپ دیا تھا۔میں رحمت شاہ آفریدی کو نواز شریف کی بطور حکمران بدترین لوٹ مار کو آشکار کرنے اور تحقیقاتی صحافت کا موجد قرار دیتا ہوں۔اِس سے پہلے1990 میں فرنٹیئرپوسٹ نواز شریف برادرز کی بھارت سے قریباً 20 ٹیکسٹائل مشینریوں کی غیر قانونی درآمد پر Exclusive چھاپ کر تہلکہ مچا چکے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب رحمت شاہ آفریدی پروگرام کے لیے جیل روڈ پر آئے تو مالکان سمیت سب حیران رہ گئے کہ لالہ  تو ٹی وی پر کم کم ہی آتا تھا لیکن میرا مقصد رحمت شاہ آفریدی سے وہ بات اُگلوانی تھا جس نے 1989 میں پاکستان کی سیاست کا رنگ ڈھنگ اور اخلاقیات ہی بدل ڈالی تھی۔پروگرام سے پہلے جب میں نے رحمت شاہ آفریدی کو کہا کہ”لالہ اسامہ بن لادن والی بات کرنی ہے مجھے“ تو لالہ نے کہا کہ”یار چھوڑو!جب یہ بات آن ایئر ہی نہیں ہونی تو کرنے کا کیا فائدہ؟“ اِس پر میں نے رحمت شاہ آفریدی کو کہا تھا کہ”اِس چینل پر پروگرام شروع کرنے سے پہلے میرا مالکان سے اِس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ نہ تو میرے گیسٹ اور نہ ہی میرے Content کو کوئی چھیڑے گا اور میرا ہر پروگرام بغیر ایڈیٹنگ کے آن ائیر ہو گا“۔جب پروگرام کی ریکارڈنگ شروع ہوئی توسٹوڈیو میں میرے مرحوم دوست شفقت رحمان خان اور سردار افراز احمد خان بھی بیٹھے تھے۔ رحمت شاہ آفریدی سے آف دی ریکارڈ متعدد مرتبہ 1989 میں بینظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے قبل جہاد کے نام پر نواز شریف کے اسامہ بن لادن سے لئے گئے ڈیڑھ ارب روپے پر بارے بات ہوتی رہی تھی۔پروگرام کے دوران میں نے دانستہ مدینہ کے ہوٹل میں ہونے والی ملاقات کا ذکر کیا اور اِس طرح اسامہ بن لادن سے بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کرنے اور مبینہ جہاد کے لیے 1989 میں لیے گئے ڈیڑھ ارب روپے کی تفصیلات عوام کے سامنے آئیں۔ نواز شریف کا اسامہ بن لادن سے ڈیڑھ ارب روپے حاصل کرنے والے پروگرام کی بازگشت بھارت سمیت دنیا بھر میں سنائی دی اور میرے اِس پروگرام کو عمران خان نے نہ صرف اپنے جلسوں میں چلایا بلکہ بی بی سی نے نواز شریف کی کرپشن پر بنائی ڈاکیومنٹری ”پینڈورا آف پانامہ“میں میرے پروگرام کے کلپ بھی ڈالے۔یہ پروگرام دنیا بھر میں مشہور ہوا اور پاکستان کے تمام چینلز نے بھی میرے پروگرام کے کلپس کو اپنے ٹاک شوز کا حصہ بنایا۔ جب نواز شریف نے دوسری مرتبہ 1997 میں اقتدار سنبھالا تو اِس نے رحمت شاہ آفریدی کو ایک خوفناک سزا دینے کا فیصلہ کیا اور پھر میاں نواز شریف کی فاشسٹ حکومت نے اِنہیں لاہور کے مال روڈ پر واقع ایک فائیو سٹار ہوٹل سے نہایت بھونڈے طریقے سے گرفتار کر کے فوری طور پرمنشیات سمگلنگ کا ایک ایسا جھوٹا مقدمہ درج کروا یا کہ جس کا ”مال مقدمہ“بھی نہیں تھا لیکن رحمت شاہ آفریدی کی بے باک صحافت کو روکنے کے لیے نواز شریف نے اپنے بندوبست کے تحت رحمت شاہ آفریدی کو سزائے موت دلوا کر پھانسی کی کوٹھڑی میں بند کروا دیا۔2008 میں جب آصف علی زرداری صدر پاکستان بنے تو پھر رحمت شاہ آفریدی کو معافی دے دی گئی لیکن فرنٹیئر پوسٹ تباہ کر دیا گیا۔
ہر صحافی کے پاس”آف دی ریکارڈ“ بہت سے گفتگو ہوتی ہے جو ہم الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا میں نہیں لاتے اور اگر آف دی ریکارڈ گفتگو کو پبلک کیا جائے تو یہ بدترین صحافتی بدیانتی کہلاتی ہے جو صحافی کی کریڈیبلٹی اور وقار کو بری طرح ٹھیس پہنچاتی ہے۔آج میں ایک آف دی ریکارڈ گفتگو کو اپنے کالم کا حصہ بنا رہا ہوں لیکن قارئین کو بتانے کی ضرورت ہے کہ اِس آف دی ریکارڈ گفتگو کو نذرِ قارئین کرنے سے پہلے میں رحمت شاہ آفریدی سے اِس کو شائع کرنے کی اجازت لے چکا ہوں۔ (جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button