Columnمحمد مبشر انوار

ظلم پھر ظلم ہے! ….. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار
انسان فطرتاً آزاد پیدا ہوا ہے لیکن اِس فطری جبلت کو بنی نوع انسان ہی حیلے بہانے،جبر،ظلم سے غلام بنانے پر تلی نظر آتی ہے،جس کے مظاہر تاریخ میں تسلسل کے ساتھ نظر آتے ہیں۔اِس کا طریقہ کار بہر طور مختلف رہا ہے کہ ایک زمانے میں باقاعدہ زرخرید غلام رکھنے کا رواج ملتا ہے تو دوسری طرف اقتدار کے تحت انسانوں کے بنیادی حقوق سلب کئے جانے کے مظاہر آج بھی دنیا دیکھ رہی ہے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کی خاطر،بہت سی عالمی تنظیموں کا وجود بھی ہنوز بھر پور انسانی حقوق کو یقینی بنانے سے قاصر ہے اور غیر ریاستی و ریاستی ظلم وجبر کے سامنے انسانوں کی بڑی تعداد انتہا پسندوں کے ہاتھوں غلام نظر آتی ہے۔انتہا پسندی کی اِس لہر میں فقط انسانی حقوق کی پامالی ہی نہیں ہو رہی بلکہ انسانی خون انتہائی بے دردی سے رزق خاک بن رہا ہے،عزتوں اور عصمتوں کو جبراً تارتار کیا جا رہا ہے، دور جدید میں چادر اور چاردیواری کا تصور کی سرِعام دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں لیکن اقوام عالم اِس پر خاموش تماشائی بنی،لبوں کو سیئے ہوئے ہے۔ سب سے بڑھ کر دُکھ کی بات یہ ہے کہ کرہ ارض پر جہاں کہیں بھی انسانی بنیادی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے،وہ اسلام کے نام لیوا ہیں،یہ گھناؤنا کھیل کہیں نسل پرستی کی آڑ میں ہو رہا ہے تو کہیں مذہبی بنیاد پر خون مسلم سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔مغرب یا مہذب دنیا میں اِس کے مظاہر نسل پرستی کی صورت میں سامنے آتے ہیں،پس پردہ جس میں اسلام دشمنی کا عنصر واضح ہے کہ کہیں سے بھی ایسی خبر نہیں ملتی کہ نسل پرستی کی آڑ میں کسی غیر مسلم کے ساتھ زیادتی کی گئی ہو،اِن پر تشدد کیا گیا ہو یا اِنہیں قتل کیا گیا ہو،البتہ غیر مسلموں کے حوالے سے اِکا دُکا واقعات جو سامنے آتے،اِن کی حقیقت بھی اتنی ہے کہ غلط فہمی میں اِنہیں مسلمان سمجھتے ہوئے یا ذاتی مسائل کے حوالے سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ حقیقت یہی ہے کہ مغرب میں لوگوں کی برین واشنگ اِس طرح سے کی گئی ہے کہ وہ صرف اور صرف مسلمانوں کو ہی اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور اِنہیں ہی انتہا پسند کہتے اور سمجھتے ہیں،جس کے پیچھے صد فیصد نہ صرف مغربی قائدین بلکہ ِان کے میڈیا کا بھر پور ہاتھ ہے،میڈیا کے حوالے سے پس پردہ غیرمسلم طاقتیں بالعموم اور بھارتی کردار بالخصوص اِس خودساختہ مہذب قوم کی آنکھوں سے دانستہ یا نادانستہ اوجھل رہتا ہے۔
برصغیر میں گذشتہ چند دہائیوں میں ظلم و ستم کا جو بازار گرم ہے،ا ِس پر عالمی برادری اور حقوق انسانی کی تنظیمیں بالعموم خاموش تماشائی رہی ہیں البتہ چند ایک ایسی ضرور ہیں،جن میں ضمیر کی کچھ رمق باقی دکھائی دے رہی ہے اور وہ بھارت کے ظلم و ستم پر احتجاجی آوازیں بلند کر رہی ہیں، جس کی ایک ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بھارت کی چیرہ دستیاں اَب مسلمانوں سے بڑھ کر اِن اقلیتوں پر بھی شروع ہو گئی ہیں،جن کا تعلق براہ راست مغرب سے ہے۔ بدقسمتی سے فی الوقت اِن تنظیموں کی آواز سننے کے لیے کوئی تیار نظر نہیں آتا،وگرنہ یہ ممکن نہ تھاکہ عالمی طاقتیں بھارت کی ریاستی انتہا پسندی و انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر پابندیاں نہ لگاتیں،اِس دہرے معیار پر ماسوائے یہ سوچنے اور سمجھنے کے کوئی اور چارہ نہیں کہ عالمی برادری بذات خود اِس تمام گھناؤنے کھیل میں ملوث ہے اور گیہوں کے ساتھ گھن پسنے پر بھی خاموش ہے،دوسری طرف عالمی برادری کے اِس غیر اعلانیہ آشیرواد پر مودی انتہا پسند سرکار کھُل کھیل رہی ہے اور ہندتوا کو عملی جامہ پہنانے کے لیے موجودہ مناسب موقعہ کو ضائع نہیں کرنا چاہتی۔
بھارت کے طول و عرض میں ریاستی جبر کے خلاف ہر شہری سراپا احتجاج نظر آتا ہے لیکن مودی سرکار پر اِس کا کوئی اثر نہیں ہو رہااور وہ اپنے ہندتوا کے ایجنڈے پر پوری یکسوئی کے ساتھ بروئے کار ہے۔ بات اب مسلمانوں کے قتل عام سے بڑھ کر کہیں آگے جا چکی ہے،مسلم بیٹیوں کی تصاویر انٹرنیٹ پر پھیلا کر اِن کو بیچنے کے انتہائی گھناؤنے اقدام کے ساتھ سرعام مسلمان بچیوں کے ساتھ ناروا سلوک تو عام سی بات بن چکی ہے۔دنیا کی بڑی جمہوریت اور سیکولرازم کے دعویدار،مذہبی آزادیوں کا گلا گھونٹ رہے ہیں،مذہبی تشخص کو رسوا کررہے ہیں،تضحیک کی جا رہی ہے،جینا دوبھر ہو رہا ہے لیکن کوئی ایسا ہاتھ نظر نہیں آتا جو ظالم کے اُٹھتے ہوئے ہاتھ کو کاٹ سکے۔حوا کی بیٹیاں کسی مسیحا کے انتظار میں اپنی ردائیں تارتار کرواتی جا رہی ہیں،گِدھ اِن کی عصمتوں کو نوچ رہے ہیں لیکن فی الوقت کوئی مسیحا نمودار نہیں ہو رہا، البتہ اِس قحط الرجال میں شیر میسور کی سرزمین سے مسکان نامی،قوم کی بیٹی نے جس جرأت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ قوم کی بیٹیوں اور سپوتوں کے لیے مشعل راہ بن سکتا ہے۔ جو دیا مسکان خان نے جلایا ہے،اُمید واثق رکھنی چاہئے کہ اِس دئیے سے اور بہت سے دئیے جل اٹھیں گے اور اِس سوئی ہوئی قوم کو جگانے اور اِس کا ماضی یاد دلانے میں کام آئیں گے کہ یہ حقیقت ہے کہ خدا نے آج تک اِس قوم کی حالت نہیں بدلی، جسے خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو۔اِس سے زیادہ ذلت و رسوائی اور کیا ہو گی کہ بھارت میں مسلمان دن بدن شدید ترین دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں، ظلم و بربریت سہہ رہے ہیں لیکن اِس کے خلاف اُٹھانے کا حوصلہ نہیں کر رہے،کیا کوئی ایک چراغ بھی اِن کو اپنا تابناک ماضی یاد نہیں دلا سکتا؟کیا اپنے اسلاف کی روایات کو زندہ نہیں کر سکتا؟
ہندوتوا کے پیروکار،کم و بیش ہزار سالہ محکومیت کے دور سے نکلنے کے بعد،اوقات سے باہر ہو رہے ہیں کہ اِس وقت حالات اِن کے لیے انتہائی سازگار ہیں کہ وہ جو کچھ بھی کریں، اِنہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔کوے کی مانند، ہنس کی چال چلنے کی کوشش کرتا بھارت،آج مسلم بچیوں کو نقاب/پردے کو اتارنے کے لیے آر ایس ایس کے غنڈوں کو بھرپور ریاستی سرپرستی فراہم کر رہا ہے اور سرِراہ چلتی با پردہ بچیوں /عورتوں پر آر ایس ایس کے غنڈے گندا پانی پھینکتے ہیں تو کہیں اِن پر ظلم و تشدد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بھارت کا یہ رویہ،خود بھارت کی سالمیت کے لیے کتنا خطرناک ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ اِس کا اندازہ موجودہ سیاسی قیادت کو قطعی نہیں،کہ وہ خلافت عثمانیہ ختم ہونے کے بعد، جو سلوک مغرب نے مسلمانوں پر وہاں کیاتھا، اِس تاریخ کو دہرانے کے کوشش کر رہے ہیں لیکن جغرافیائی محل وقوع اور کلچر کے فرق کے باوجود کیا بھارت کے لیے یہ ممکن ہو سکے گا کہ وہ اِس بربریت کے ساتھ بھارت کی سرزمین سے اقلیتوں (غیر ہندوؤں)کا صفایا کر دے؟ بھارتی حکومت تو یہی خواب سجائے بیٹھی ہے لیکن عوامی شعور کو مسلسل بیدار کئے جا رہی ہے اور عوام الناس اِن غیر انسانی و غیر حقیقی پالیسیوں پر مسلسل تنقید کررہے ہیں۔ بھارت میں بسنے والے عام مسلمانوں کی تو آر ایس ایس کے نزدیک خیر حقیقت ہی کچھ نہیں کہ آر ایس ایس کے غنڈے،ریاستی سرپرستی میں بھارت کی نامور مسلم شخصیات کو بھی دبانے سے نہیں چوکتے، جس کی حالیہ مثال لتامنگیشکر کی آخری رسومات کے دوران، بھارتی سپرسٹار شاہ رخ خان کی پھونک مارتی تصویر کو،تھوکنا سمجھ کر شاہ رخ خان کو زیرعتاب لایا جا رہا ہے۔ اِس سے قبل،شاہ رخ خان ہی کے بیٹے کو منشیات کے معاملے میں گھسیٹا گیا اور شدید لعن طعن کی گئی، یہ سب باقاعدہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہو رہا ہے لیکن اِس کے انجام سے یہ انتہا پسند یقینی طور پر بے خبر ہیں۔ مسلمہ حقیقت تو یہی ہے کہ کفر کی حکومت چل سکتی ہے لیکن ناانصافی کی حکومت نہیں چل سکتی،بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں کی حکومت کتنا عرصہ چلتی ہے،یقینی طور پرکچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن مودی سرکارنادانستہ طور پر بھارت کی جغرافیائی حدود کا ازسر نو تعین اپنی حماقتوں سے کرنے جا رہی ہے اور اگر یہ حکومت جاری رہتی ہے تو یہ بات بھی یقینی ہے کہ بھارت کے ٹکڑے ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت اِسے نہیں روک سکتی کہ قانون قدرت ہے کہ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔
 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button