Column

مسکان تیری جرأت و غیرت کو سلام …. حبیب اللہ قمر

حبیب اللہ قمر

بھارت میں سیکنڈ ایئر کی طالبہ مسکان کی جرا ¿ت و بہادری کا اِس وقت پوری دنیا پر چرچا ہے۔ فیس بک، ٹویٹراور یوٹیوب سمیت سوشل میڈیا کے جتنے بھی پلیٹ فارم ہیں سب پر اِس کی دلیری کے تذکرے اور ہندوانتہاپسندوں کے جتھے کے سامنے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرنے کا معاملہ ٹاپ ٹرینڈ پر ہے۔ ہر کوئی جاننا چاہتا ہے کہ اُمت مسلمہ کا سر فخر سے بلند کرنے والی یہ غیرت مند بیٹی کون ہے؟ الجزیرہ، العربیہ، ٹی آرٹی اور دوسرے بین الاقوامی میڈیا کے سبھی ادارے اپنی نشریات میں مسکان کی ویڈیو دکھا رہے ہیں اور گیدڑوں کے نرغے میں بلاخوف و خطر تکبیر کے نعرے لگانے والی بہادر بیٹی کو خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے۔ ایک ایسا درندہ صفت معاشرہ جہاں کسی کی جان و مال اور عزت محفوظ نہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں پر انسانیت کا قتل عام ہے اور ہر روز چلتی بسوں، گاڑیوں اور گلی کوچوں میں بلاتفریق رنگ، نسل اور مذہب خواتین کی عزتیں تار تار کی جاتی ہیں، وہاں ایک اٹھارہ سالہ شیر دل مسلمان بیٹی سینکڑوں ہندو انتہاپسندوں کے سامنے اکیلی ڈٹ جاتی ہے۔ ساری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ہندو انتہاپسند سینے پر بزدلی کے تمغے سجائے ایک نہتی لڑکی کو ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اِس کا گھیراﺅ کر کے زچ کرنے کے لیے جے شری رام کے نعرے لگا ئے جارہے ہیں مگر مسلمانوں کا فخر اِس بیٹی کے چہرے پر کوئی گھبراہٹ، خوف اور پریشانی نہیںتھی۔ اِس نے بزدلوں کے ٹولے کو دیکھ کر بھاگنے کی کوشش نہیں کی بلکہ جرا ¿ت و شجاعت کا استعارہ بن کر سنجیدگی، متانت اور وقار سے چلتے ہوئے جے شری رام کے مقابلے میں اللہ اکبر کے نعرے بلند کیے اور ہندوتواکے مکروہ چہرے پر کالک مل کر رکھ دی۔ کل تک وہی بی جے پی لیڈر جو حجاب کی آڑ میں جہادی انتشار پھیلانے کی پھبتیاں کس رہے تھے اور مسلمانوں کے خلاف طعنہ زنی کر کے اِن کا جینا دوبھر کیا جارہا تھا آج یہ ویڈیو دیکھ کر شرم سے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ سارے بھگوا بریگیڈوں کی ”بہادری“ کا ایک نہتی لڑکی نے جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ دنیا بھرمیں مسلمانوں کے علاوہ بھی جس کسی کے دل میں تھوڑی بہت انصاف کی رمق موجود ہے، وہ مودی سرکار کے پروردہ زعفرانی رومال والے سورماﺅں پر تین لفظ ضرور بھیج رہا ہے۔

حجاب پہننا مسلمان عورت پر فرض ہے۔ برقعہ اِس کی عزت و عصمت کی حفاظت کرتا ہے۔ حجاب پر پابندی مسلمانوں کے عقیدے،شناخت اور اِن کی عزت و وقار پر حملہ ہے۔ ہندوستان جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت قرار دیتا ہے، اِس کے آئین میں موجود ہے کہ اپنی مرضی کا لباس پہننا ہر کسی کا حق ہے اور کسی مرد کے ٹوپی پہننے یا کسی عورت کے برقعہ پہننے پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا لیکن اِسی ہندوستان میں پچھلے قریباً ایک ماہ سے یہ تنازعہ عروج پر ہے۔ پہلے کرناٹک کے ایک کالج میں باپردہ طالبات کو زبردستی کالج میں داخل ہونے سے روکا گیا، بی جے پی اور آر ایس ایس لیڈروں کی طرف سے طلباءتنظیموں میں بڑے پیمانے پر زعفرانی رومال اور شالیں تقسیم کی گئیں کہ اِنہیں پہن کر تعلیمی اداروں میں انتہاپسندی کا ماحول پیدا کرو اور مسلم طالبات کو ہراساں کر کے نہ صرف اِن کے برقعے اتروائے جائیں بلکہ اِن کی تعلیم کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کی جائیں ۔ جب سرکاری سرپرستی حاصل ہو، پیسے بھی مل رہے ہوں اور میڈیا کے ذریعے شہرت بھی حاصل ہو رہی ہو تو انتہاپسندی میں ملوث درندے تعلیمی اداروں کا ماحول برباد نہیں کریں گے تو اور کیا کریں گے۔ ہندو طلباءنے مظاہرے شروع کیے تو بجرنگ دل، وی ایچ پی، آر ایس ایس اور دوسری انتہاپسند تنظیموں کے اہلکار بھی ساتھ مل گئے، یوں پورے بھارت میں طالبات کے حجاب کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز ماحول برپا کیا جاتا رہا۔ مسلم لڑکیوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے آئینی حق کے لیے بھرپورجدوجہد کا آغاز کیا، تعلیمی اداروں کے باہر مظاہرے کیے اور قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے والدین کی مدد سے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے مگر اِس سارے عمل کے دوران بھارت کی مسلمان تنظیمیں کہیں دکھائی نہیں دیں، حتیٰ کہ مجلس اتحادالمسلمین جس کے لیڈر اسدالدین اویسی پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی کے حجاب کے حق میں دیئے جانے والے بیان پر فوری بولے ہیں کہ پاکستان کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے، اِن کی تنظیم اور اِس کے لیڈر وں نے بھی ہلکے پھلکے مذمتی بیان کے لیے کئی دن لگا دیئے، یعنی سارے ہندوستان میں ہندوانتہاپسند برقعہ پہننے والی بچیوں کا مذاق اڑاتے رہے، اِنہیں کالجوں میں داخل ہونے سے روکا جاتا رہا اور وہ احتجاج کرتے ہوئے خود ہی تعلیمی اداروں کے باہر دھرنوں پر بیٹھیں مگرکانگریسی ذہن کے بھارتی مسلمان لیڈروں نے مصلحت پسندی کی چادر اوڑھے رکھی۔ حجاب جیسے خالصتاً شرعی مسئلہ پر بھی کوئی لب کشائی نہیں کر رہا تھا ، یہی وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں آئی۔ خالق کائنات نے کس کو عزت دینی ہے اور کس سے اپنے دین کے دفاع کا کام لینا ہے یہ وہی جانتا ہے۔ وہ چاہے تو ایک کم عمر مسلمان بیٹی سے وہ کام لے لے جو بڑی بڑی دستاروں والے نہ کر سکیں یہ اِس کے اختیار میں ہے۔
حقیقت ہے کہ حجاب پر پابندی جیسے تنازعہ میں بھی مسکان خان جیسی مسلم بیٹیاں بازی لے گئیں۔ اِس ایک بیٹی مسکان بنت محمد حسین نے ہندوانتہاپسند جتھے کے سامنے اللہ کی توحیداور اِس کی کبریائی کا کلمہ بلند کیا، خالق کائنات نے پل بھر میں عزت و سرفرازی سے نواز دیا۔ اِس وقت صورت حال یہ ہے کہ بھگوا دہشت گردوں کے سامنے ہمت، بہادری اور دلیری کی داستان رقم کرنے والی مسلم بیٹی کے لیے انعامات کے اعلان کیے جارہے ہیں اور میڈیاکے ادارے اِس کے ایک انٹرویو کے لیے پیچھے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ دنیا بھر میں حجاب تنازعہ کی بازگشت سنائی دینے پر بھارتی حکومتی ذمہ داران دفاعی پوزیشن میں آ چکے ہیں۔ بھارت کی دیگر ریاستیں جو ہندوتواکا گڑھ سمجھی جانے والی ریاست کرناٹک کو رول ماڈل بناتے ہوئے اپنے علاقوں میں بھی ڈریس کوڈ کی آڑ میں حجاب پر پابندی کی باتیں کر رہی تھیں اپنے فیصلے بدلتی دکھائی دیتی ہیں۔ ابھی کل ہی مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر نروتم مشر نے اپنے وزیرتعلیم اندر سنگھ پرمار کے اِس بیان کی تردید کی ہے کہ آئندہ تعلیمی سال میں حجاب پر پابندی لگائی جارہی ہے۔ اِدھر کرناٹک ہائی کورٹ کے جج نے بھی مسلم طالبات کی طرف سے دائر کیے گئے مقدمہ کو چیف جسٹس کے پاس بھجوادیا ہے کہ اِس کیس کی سماعت کے لیے بڑا بنچ تشکیل دیا جائے۔ اِس سے پہلے بھارتی عدالت کے جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم قرآن کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکتے، گویا کہ مسکان کے اِس ایک عمل نے پورے بھارتی معاشرے میں جہاں ہندوانتہاپسندوں کو رسوائی سے دوچار کیا ہے وہیں مسلمانوں کے جذبات کو بھی ایک نئی جلا بخشی ہے۔ ہندوستان کے مختلف شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں باپردہ عورتوںنے سڑکوں پر نکل کر پُرامن احتجاجی مظاہرے کیے ہیں اور کالجوں و یونیورسٹیوں میں دوسری طالبات بھی بغیر کسی خوف کے حجاب پہنے دکھائی دیتی ہیں۔ آج ہر کوئی مسکان کی جرا ¿ت و بہادری پر اِسے سلام پیش کر رہا اور زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ یہی تو وہ مسلم بیٹی ہے جس کے سحرسے شبستان وجود لرزتا ہے۔ مسلمانوں کی عزت و افتخاراِن بیٹیوں کے جذبے مایوسی کے اندھیروں میں روشنی کا چراغ ہیں۔ مسکان جیسی غیور بیٹیاں اپنا اسلامی تشخص کسی طور کھونا نہیں چاہتیں۔ ہم نے اِن کے اِس عزم و حوصلے کی حفاظت کرنی ہے اور اِن کی امیدوں کو بکھرنے نہیں دینا۔ ہمیں یقین ہے بھارت کی غیور مسلم بیٹیوں کی اِس عظیم جدوجہد سے فاشسٹ مودی سرکار کا ہندوتوا کا نظریہ زمین بوس ہو گااور تابناک مستقبل کے چشمے اِنہی ایڑیوں سے پھوٹیں گے ۔ پاکستانی حکام کی طرف سے بھارتی حکومت کے اس رویہ کی مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور او آئی سی سمیت دیگر اداروں سے نوٹس لینے کا مطالبہ خوش آئند ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ بھارت کی مودی سرکار کے دہشت گردانہ کردار کو دنیا بھر میں بے نقاب کیا جائے اور اپنے سفارت خانوں کو متحرک کرتے ہوئے مسلم ممالک کو خاص طور پر حالات کی سنگینی سے آگاہ کیا جائے تاکہ بھارتی حکومت پر دباﺅ بڑھایا جاسکے کہ وہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق پامال کرنے سے باز رہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button