Column

منگیشی کی لتا منگیشکر … احمد نوید

احمد نوید …

بھارت کے مشہور شہر گوا میں ایک چھوٹا سا گاﺅں ہے، یا کہہ لیں کہ دوہزار گھروں پر مشتمل ایک چھوٹی سی بستی ، جس کا نام منگیشی ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں ہندی فلمی موسیقی کا پہلا خاندان اپنی شناخت جوڑے ہوئے ہے ۔ لتا کے والد ماسٹر دینا ناتھ کی پیدائش منگیشی بستی میں 1900میں ہوئی تھی ۔ ماسٹر دینا ناتھ کی ماں منگیشی کے مندر میں دیوداسی تھی جبکہ خود ماسٹر دینا ناتھ سیوکاری ۔

ماسٹر دینا ناتھ چونکہ اپنی ایک ڈرامہ کمپنی بنانے کے خواہش مند تھے ۔ اِس لیے وہ کولہا پور چلے گئے ، تاہم کولہا پور جانے سے قبل ماسٹر دینا ناتھ منگیشکر نے اپنے نام سے منگیشکر علیحدہ کر دیا۔ ایسا کرنے کے باوجود دنیا آج بھی ماسٹر دینا ناتھ کی بیٹی لتا کو لتا منگیشکر کے نام سے جانتی ہے ۔ جو سات دہائیوں تک ہندوستانی موسیقی کی صنعت پر سُروں کی ملکہ بن کر چھائی رہیں۔ لتا نے 36سے زیادہ ہندوستانی زبانوں میں گانے گائے۔ بھارت رتن اور دادا صاحب پھالکے جیسے بڑے اعزازات کے علاوہ لتا منگیشکر کو بے شمار اعزازات سے نوازا گیا ۔

لتا منگیشکر کا پیدائشی نا م لتا نہیں تھا بلکہ بچپن میں اُن کا نام ”ہیما “ رکھا گیا جو بعد میں اُن کے والد نے اپنے ڈرامے کی ایک خاتون کردار” لتیکا“ سے متاثر ہو کر لتا رکھ دیا تھا۔
لتا اپنے خاندان میں سب سے بڑی بیٹی تھیں ۔ لتا نے موسیقی کا پہلا سبق اپنے والد سے پانچ سال کی عمر میں حاصل کیا ۔ گانے سے قبل لتا منگیشکر نے اداکاری کی دنیا میں قدم رکھا۔ 1942میں جب لتا 13سال کی تھیں تو اُن کے والد ماسٹر دینا ناتھ منگیشکر دل کی بیماری سے انتقال کر گئے ۔1945میں لتا ممبئی چلی آئیں ۔ جہاں انہوں نے بھنڈی بازار گھرانہ کے اُستاد امان علی خان سے کلاسیکی موسیقی کی تعلیم لینا شروع کی۔ اِسی دوران 1945ہی میں فلم ”بڑی ماں“ میں لتا اور اُن کی بہن آشا نے چھوٹے سے کردار ادا کیے۔
1948میں میوزک ڈائریکٹر غلام حیدر نے لتا منگیشکر کی رہنمائی کی ، جو اِس سے قبل نورجہاں کو بھی متعارف کروا چکے تھے۔ موسیقار غلام حیدر صاحب نے جب لتا کو فلم پروڈیوسر شادھر مکھر جی سے ملوایاجو اُس وقت فلم شہید (1948) بنا رہے تھے۔ شادھر مکھر جی نے لتا کی آواز کو ”بہت پتلی“ کہہ کر مسترد کر دیا تھا۔ تب غلام حیدر صاحب نے وہ یاد گار الفاظ کہے تھے کہ آنے والے سالوں میں پروڈیوسر اور ہدایت کار ”لتا کے قدموں میں گریں گے اور اُس سے درخواست کریں گے کہ وہ اُن کی فلموں میں گانے گائے “آنے والے وقت نے یہ ثابت کر دکھایا اور ستمبر 2013میں اپنی 84ویں سالگرہ پر لتا منگیشکر نے ایک انٹرویو میں اس بات کا اظہار کیا۔

”غلام حیدر میرے گاڈ فادر تھے، وہ پہلے موسیقار تھے ، جنہوں نے میری صلاحیتوں پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔“فلمی دنیا کے کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ لتا منگیشکر نے ابتداءمیں نو ر جہاں کی تقلید کی تاہم پھر اپنی محنت سے انہوں نے اپنا انداز تیار کیا۔ دلیپ کمار صاحب کے کہنے پر لتا جی نے ایک شفیع نامی استاد سے اردو کی تعلیم بھی حاصل کی ،تاکہ اردو شاعری میں لکھے گانوں کو وہ بہتر انداز میں گاسکیں۔

میڈیم نور جہاں اور لتا کی دوستی ،گہرا تعلق بہت عرصے تک قائم رہا۔ لتا منگیشکر میڈیم نورجہاں کو دیدی کہہ کر پکارتی تھیں۔ لتا منگیشکر نے ایک بار کہا تھا کہ میڈم نور جہاں نے جب اُنہیں بچپن میں سُنا تو بہت مشق کرنے کو کہا تھا۔

لتا منگیشکر کی پہلی بہت بڑی کامیاب فلموں میں سے ایک فلم محل (1949)تھی۔ جس کا ایک گانا”آئے گا آنے والا“ شہرت کی بلندیوں کو پہنچا۔ اِس سدا بہار گانے نے لتا منگیشکر کو پلے بیک کی دنیا کا لازمی حصہ بنا دیا۔ تب برصغیر کے کروڑوں موسیقی کے شائقین کو ایسے لازوال گیت سننے کو ملے جو آج بھی سدا بہار ہیں اور اُن کو گنگنائے بغیر رہا نہیں جا سکتا۔

پیار کیا تو ڈرنا کیا، عجیب داستان ہے یہ ، ہونٹوں پہ ایسی بات میں دبائے چلی آئی ، اِنہی لوگوں نے ، آج پھر جینے کی تمنا ہے ، آپ کی نظروں نے سمجھا، تیرے بنا زندگی سے کوئی ، لگ جا گلے، گاتا رہے میرا دل، تو جہاں جہاں چلے گا، لتا منگیشکر نے ہندوستان کے قریباً سبھی بڑے موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔ شنکر جے کشن، نوشاد علی ، ایس ڈی برمن، ہیمنت کمار، خیال، سجاد حسین ، کلیان جی آنند جی ، مدھن موہن ، لکشمی کانت پیارے لال، راہول دیو برمن، بپی لہری، ندیم شیروان، جتن للت، انوملک حتیٰ کہ یہ طویل سلسلہ اے آر رحمنٰ تک چلتا رہا۔

لتا کے لیے لکھنے والے گیت کاروں کی بھی ایک طویل فہرست ہے ۔ جنہوں نے لتا جی کے لیے لکھا یا یہ کہہ لیں کہ لتا نے اپنی سریلی آواز سے اِن شعراءکے نغموں کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔ کیف اعظمی ، مجروح سلطان پوری ، آنند بخشی، جاوید اختر ، گلزار صاحب اور نہ جانے کتنے نامور شعراءکے کلام کو لتا منگیشکر کی آواز نے سحر بخشا۔
20ہزار سے زیادہ فلمیں ، 30ہزار سے زیادہ گانے ، لتا منگیشکر 20ویں صدی کی برصغیر کی سب سے مشہور پلے بیک سنگر تھیں۔ دلیپ کمار صاحب نے ایک بار اُن کی آواز کے بارے میں کہا تھا کہ لتا منگیشکر کی آواز قدرت کا کرشمہ ہے۔

آج لتا منگیشکر اِس دنیا میں نہیں رہیں ۔ میں ، آپ، ہم سب اُنہیں یاد کر رہے ہیں ۔ ہماری یادوں میں بر صغیر کی یہ عظیم گلوکارہ ہمیشہ زندہ رہے گی۔ کتنا اچھا ہو اگر مستقبل میں پاکستان سے میڈم نور جہاں اور بھارت سے لتا منگیشکر کو لے کر دونوں ممالک کی فلمی صنعت کی اہم شخصیات دونوں ملکوں کی حکومتوں کے تعاون سے میڈم نور جہاں اور لتا منگیشکر کی یاد میں ایک عظیم الشان موسیقی کی سہ روزہ کانفرنس منعقد کریں۔ جس میں دونوں ملکوں کے وزیراعظم شرکت کریں۔ پاکستان سے عمران خان ، بھارت سے نریندر مودی ۔ دونوں ممالک سے ثقافتی وزیر مل بیٹھیں۔ موسیقار ،اداکار ، شاعر ، کہانی کار، اداکارجب دونوں ملکوں کے امن پسند لوگ یکجا ہو ں گے تو شائد میڈم نور جہاں اور لتا منگیشکر جیسی عظیم پلے بیک سنگرز کی وجہ سے دونوں ممالک میں امن کی راہیں دوبارہ سے کُھل جائیں ۔ لیکن اِس عظیم اور بلند تر مقصد کے لیے ابتدا کون کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button