Column

دہشت گردی میں اضافہ کیوں؟ … مظہر چودھری

مظہر چودھری

افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت قائم ہونے کے بعد سے خیبر پختون خوا اور بلوچستان سمیت ملک بھر میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔سکیورٹی فورسز اور پولیس پر بیشتر حملوں کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی جب کہ عام شہریوں پر ہوئے زیادہ تر حملوں کے قاتل نامعلوم بتائے گئے ۔چند روز قبل بلوچستان کے علاقوں پنجگور اور نوشکی میں دہشت گردوں کے حملوں میں ایک میجر سمیت سکیورٹی فورسز کے سات اہلکار شہید ہو ئے ۔پچھلے ماہ لاہور کے مشہور بازار انار کلی میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں تین افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ ایک ہفتہ قبل پشاور میں تین مسیحی افرادکی ٹارگٹ کلنگ کی گئی جس میں ایک پادری ولیم سراج کی موت ہوئی تھی۔دہشت گردی کے ان تین واقعات کے علاوہ دیگر واقعات میںکالعدم ٹی ٹی پی، داعش خراسان اور بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔دہشت گردی کے حالیہ واقعات سمیت گذشتہ چند ماہ میں ہونے والی بیشتر دہشت گرد کارروائیوں کے بارے میں تشویش ناک بات یہ سامنے آئی ہے کہ ان کی منصوبہ بندی پاک افغان سرحدی علاقوں اور افغان سرزمین پر ہوئی ہے۔

اگرچہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغان سرزمین کا استعمال کوئی نئی بات نہیں لیکن افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد افغان سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی آناکئی وجوہ کی بنا پر تشویش ناک قرار دی جا سکتی ہے۔سب جانتے ہیں کہ گذشتہ کئی سال سے ہمارے ہاں ریاستی بیانیہ یہ قائم کیا گیا کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کا آپس میں کوئی تعلق نہیںاور کالعدم ٹی ٹی پی کو بھارت اور سابق افغان حکومت کی سرپرستی و حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا مکمل خاتمہ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔اس کے علاوہ ریاستی وحکومتی سطح پر ہمارے ہاں یہ بیانیہ بھی بڑے وثوق سے بیان کیا جاتا رہا کہ جیسے ہی افغانستان میں طالبان حکمران بنیں گے تو یا تو وہ راتوں رات وہاں سے ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں سمیت دیگر ملک دشمن گروہوں کا صفایا کر دیں گے یا کم ازکم افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کسی مسلح گروہ کوکارروائیوں کی اجازت کسی بھی صورت نہیں دیں گے لیکن معاملہ اس کے بالکل برعکس ہو گیا۔ پاکستان نے اپنے طور پر خطے کے بہترین مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے افغانستان میں طالبان کی حکومت کی نہ صرف حمایت کی بل کہ ان کی حکومت کو اقوام عالم سے تسلیم کرانے کی کوششوں کا آغاز کرنے کے ساتھ ساتھ مالی مشکلات کے خاتمے کے لیے بھی امریکہ سمیت مغربی طاقتوں کو قائل کرنے کے عملی اقدامات اٹھائے، لیکن اس کے باوجود طالبان حکومت کی جانب سے پاکستان کے ساتھ سرد مہری والا رویہ اختیار کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

اگرچہ طالبان حکومت نے کالعدم ٹی ٹی پی کو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں بند کرنے اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی لیکن عملی طور پر ایسا نہ ہوسکا۔افغانستان میں طالبان حکومت بننے کے بعدایک طرف کالعدم ٹی ٹی پی نے جنگ بندی ترک کرتے ہوئے پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی نئی کارروائیوں کا آغاز کر دیا اور دوسری طرف افغانستان میں موجود بلوچ علیحدگی پسند گروہوں نے بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے سمیت دیگر دہشت گرد کارروائیوں میں تیزی لانا شروع کر دی۔انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں کی منصوبہ بندی کے لیے افغان سرزمین استعمال ہونے کے واضح شواہد موجود ہیںجس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کو بھارت کی آشیر باد حاصل ہے۔

پچھلی دو دہائیوں میں پاکستان دہشت گردی کی وجہ سے 80ہزار جانوں کا نقصان اٹھا چکا ہے، 30سے 40لاکھ افراد اندرون ملک دربدر ہو چکے ہیں اور دہشت گردی کی وجہ سے ملکی معیشت کو100ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے۔حکومتی وریاستی بیانیے کومدنظر رکھتے ہوئے عام توقع یہی تھی کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں دہشت گردی میں واضح کمی آنے کی صورت میں یہاں امن وامان کا قیام یقینی ہو جائے گا۔امن وامان کی صورت حال بہتر ہونے سے ایک طرف غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے اور اس کے نتیجے میں پائیدار ترقی کی توقع رکھی جا رہی تھی تو دوسری طرف ملک میں غیر ملکی ٹیموں کی آمد کے ساتھ ساتھ یہاں آئی سی سی کے بڑے ایونٹس کے انعقاد کے خواب بھی دیکھے جا رہے تھے لیکن پچھلے چند ماہ سے بتدریج تیز ہوتی دہشت گردی کی کارروائیوں سے دیرپا امن کے قیام کا خواب اور اس کے نتیجے میں آنے والی بہتریاں ممکن ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں۔

پچھلے سال ستمبر میں نیوزی لینڈ کی ٹیم بغیر کوئی میچ کھیلے پاکستان سے واپس گئی تو اس کی وجہ دہشت گردوں کی جانب سے موصول ہونے والی دھمکی ہی تھی اور اب آسٹریلوی ٹیم کے پاکستان آنے سے پہلے دہشت گردی کے واقعات میں تیزی آ چکی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سکیورٹی فورسزاور انٹیلی جنس ادارے اپنے طور پر دہشت گردوں کے مذموم ارادوں کو ناکام بنانے کے لیے پوری تندہی سے سرگرم عمل ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک کا وزیر داخلہ آنے والے دو ماہ میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافے کاخدشہ ظاہر کر چکے ہیں۔دو روز قبل وزیر داخلہ صاحب یہ بھی فرما چکے ہیں کہ ٹی ٹی پی سے بات چیت کے لیے ہمارا وفدگیا ہے لیکن ان کی شرائط ایسی ہیں کہ مذاکرات کی کامیابی کے امکانات نہیں۔ٹی ٹی پی کے بڑے مطالبات میں سرفہرست مطالبہ قبائلی علاقوں کا سٹیٹس دوبارہ بحال کرنا ہے تاکہ وہ پھر سے وہاں اپنے قدم جماسکیں۔ان کا دوسرا مطالبہ قبائلی علاقوں سے فوج کو ہٹانے کا ہے ۔تیسرا مطالبہ اپنے پکڑے گئے لوگوں کی رہائی کا ہے جب کہ اس کے علاوہ ٹی ٹی پی قبائلی علاقوں میں شرعی نظام کے قیام کا مطالبہ بھی کرتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹی ٹی پی کی درج بالا شرائط تسلیم کرنا ریاست کے لیے آسان نہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ حالات میں ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشن پاکستان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ان حالات میں ہم اگر طالبان حکومت پر اپنا اثر ورسوخ استعمال کرکے ٹی ٹی پی کو اپنی پسند کے مطابق مذاکرات پر آمادہ کر لیں تو یہی بڑی کامیابی ہو گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button